پکار کر زمین سے بلائے گا تو تم یکبارگی نکل پڑؤ گے۔‘‘
یہ آیات کونیہ ہیں ، آپ انہی آیات کونیہ قدریہ بھی کہہ سکتے ہیں ، اور یہ آیات اللہ اس لیے ہیں کہ اس کی مخلوق یہ کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، کوئی بھی سورج اور چاند جیسی کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی دن کو رات میں یا رات کو دن میں تبدیل کر سکتا ہے۔
ان آیات میں الحاد کا مفہوم یہ کہ انہیں استقلالاً یا مشارکۃً یا اعانۃً غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ یہ کام فلاں نبی نے کیا، فلاں ولی نے کیا، یا یہ کام کرنے میں فلاں نبی یا فلاں ولی نے شرکت کی یا اس نے اللہ تعالیٰ سے تعاون کیا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍo﴾ (سباء: ۲۲)
’’کہہ دو کہ بلاؤ ان کو جن کو تم سوائے اللہ کے (معبود) خیال کرتے ہو، وہ ذرہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان کی ان میں کوئی شراکت ہے اور نہ ہی ان میں سے اللہ کے لیے کوئی مددگار ہے۔‘‘
چونکہ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ اگرچہ یہ بت مالک بھی نہیں ہیں اور ان کی اس میں کوئی شراکت بھی نہیں ہے اور یہ اس سے تعاون بھی نہیں کرتے مگر یہ ہمارے سفارشی ضرور ہیں ۔ اس پر اللہ نے فرمایا:
﴿وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ﴾ (سباء: ۲۳)
’’اور اس کے ہاں شفاعت نفع نہیں دیتی مگر جسے وہ اجازت دے۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر اس سبب کی جڑیں کاٹ دیں جس کے ساتھ مشرکین کا تعلق رہا ہے۔
آیات شرعیہ:… ان آیات سے مراد وحی ہے، جو رسولوں پر نازل ہوا کرتی تھی، جیسا کہ قرآن عظیم، میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۵۲)
’’یہ اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ پر حق کے ساتھ پڑھتے ہیں اور بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا:
﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo﴾ (العنکبوت: ۵۰)
’’اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں کہہ دیں کہ نشانیاں تو صرف اللہ کے پاس ہیں ، میں تو صرف صاف صاف ڈرانے والا ہوں ۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بھی آیات قرار دیا ہے۔ آیات شرعیہ میں الحاد سے مراد ہے، ان کی تکذیب
|