ہیں ، گفتگو کرتے ہیں مگر اس کے مطلب سے نابلد ہیں ۔
اس سے زنا دقہ کو اہل تفویض کے خلاف زبان درازی کا بھی موقع ملتا ہے اور وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ تم لوگ کچھ بھی تو نہیں جانتے، اہل علم بھی ہم ہیں اور اہل معرفت بھی ہم۔پھر وہ قرآن کی ایسی تفسیر کرنے لگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے بالکل مختلف ہوتی ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے امّی بن کر رہنے اور کسی بھی چیز سے آگاہ نہ ہونے سے بہتر ہے کہ ہم نصوص کے معانی کا اثبات کریں ۔ چنانچہ وہ اپنی پسند وناپسند کے تحت کلام باری تعالیٰ اور اس کی صفات کے بارے میں کلام کرتے ہیں مگر اہل تفویض ان کی تردید کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی مراد سے آگاہی نہیں رکھتے، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ جو تم کہتے ہو اللہ کی مراد وہی ہو۔ اسی طرح انہوں نے بڑے شر کا دروازہ کھول دیا اور ان کی طرف سے یہ جھوٹی عبارت دیکھنے کو ملی کہ سلف کا طریقہ زیادہ محفوظ ہے جبکہ خلف کا طریقہ زیادہ حکیمانہ اور عالمانہ ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ یہ کسی غبی کا قول ہے۔
طریقہ سلف کو محفوظ قرار دینا اور طریقہ خلف کو عالمانہ اور ٹھوس باور کرنا نطق کے اعتبار سے بھی جھوٹ ہے اور مدلول کے اعتبار سے بھی۔ اس لیے کہ علم وحکمت کے بغیر سلامتی ومحفوظیت کا وجود ناممکن ہے۔ جو شخص راستے کے نشیب وفراز سے آگاہ نہ ہو وہ سالم ومحفوظ نہیں رہ سکتا، اس لیے کہ اس کے پاس راستے کا علم ہی نہیں ہے، سلامتی علم وحکمت کی مرہون منت ہے۔
اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ طریقۂ سلف زیادہ سلامتی والا ہے تو پھر آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ زیادہ عالمانہ بھی ہے اور زیادہ حکیمانہ بھی۔ بصورت دیگر آپ تضادات کا شکار رہیں گے۔
لہٰذا صحیح عبارت یوں بنتی ہے: ’’طریقۂ سلف زیادہ محفوظ، زیادہ عالمانہ اور زیادہ حکیمانہ ہے۔ جبکہ طریقۂ خلف کی کسی نے اس طرح عکاسی کی ہے۔‘‘[1]
لَعَمْرِي لَقَدْ ظُفْتُ الْمَعَاہِدَ کُلَّہَا وَ سَیَّرْتُ طَرْفِیْ بَیْنَ تِلْکَ الْمَعَالِمِ
فَلَمْ أَرَ إِلَّا وَاضِعًا کَفَّ حَائِرٍ عَلَی ذَقَنٍ أَوْ قَارِعًا سِنَّ نَادِمِ
’’مجھے میری زندگی کی قسم! میں تمام معاہد کا طواف کر چکا اور ہر نشان راہ دیکھ چکا۔ مگر میں نے بجز حیرانی اور ندامت کے کہیں بھی کچھ نہ دیکھا۔ بدون علم ذات وصفات کے بارے میں بھی لب کشائی کرنے اور سلامتی کی راہ اختیار نہ کرنے سے سوائے حیرانی اور ندامت کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا کرتا۔‘‘
رازی کہتے ہیں :
نِہَایَۃُ اِقْدَامِ الْعُقُوْلِ عِقَالُ وَأَکْثَرُ سَعْيِ الْعَالَمِیْنَ ضَلَالُ
وَأَرْوَاحُنَا فِیْ وَحْشَۃٍ مِنْ جُسُوْمِنَا وَغَایَۃُ ذَنْیَانًا أَذًی وَ وَبَالُ
وَلَمْ نَسْتَفِدْ مِنْ بَحْثِنَا طُوْلَ عُمْرِنَا سِوَی أَنْ جَمَعْنَا فِیْہِ قِیْلَ وَقَالُوْا
|