Maktaba Wahhabi

447 - 552
’’اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو، یقینا جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، خواہ وہ اس کام کے لیے سب کے سب جمع ہو جائیں ۔‘‘ یہ تو سبھی کے علم میں ہے کہ وہ لوگ جنہیں اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے نزدیک بڑے بلند پایہ تھے، اس لیے کہ انہوں نے انہیں رب بنا رکھا تھا۔ جب چوٹی کہ یہ لوگ ایک مکھی پیدا کرنے سے بے بس ہو گئے حالانکہ وہ بڑی معمولی اور کمزور سی چیز ہے تو وہ اس سے بڑی چیز کو پیدا کرنے سے بطریق اولیٰ بے بس رہیں گے۔ بلکہ اللہ نے تو یہاں تک فرمایا: ﴿وَ اِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ﴾ (الحج:۷۳) ’’اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔‘‘ یعنی وہ اس حد تک عاجز و بے بس ہیں کہ مکھی سے بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتے اور اس سے بھی اپنا حق وصول کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ سوال: بتوں سے مکھی کس طرح کوئی چیز چھین سکتی ہے؟ جواب: بعض علماء فرماتے ہیں : ایسا علی سبیل الفرض کہا گیا ہے۔ یعنی فرض کریں اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ جبکہ بعض علماء کے نزدیک یہ امر واقع کے طور پر ہے مکھی بتوں پر بیٹھ کر ان کی خوشبو وغیرہ چوس لیتی ہے، مگر وہ اسے اس سے نکلوانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے، اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے خلق کے عموم پر ایمان لانا واجب ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے یہاں تک کہ بندوں کے افعال کا بھی خالق ہے۔ اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد:۱۶) ’’اللہ ہر شے کا خالق ہے۔‘‘ اور انسان کا عمل بھی ایک شے ہے۔ اور اللہ فرماتا ہے: ﴿وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان:۲) ’’اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کا ٹھیک ٹھیک انداز ٹھہرایا۔‘‘ اس بارے میں بہت سی آیات وارد ہیں ۔ اور ایک آیت تو اس موضوع کے ساتھ خاص ہے، اور وہ موضوع ہے: بندوں کے افعال کا پیدا کرنا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات:۹۶) ’’اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی۔‘‘ اس جگہ ﴿مَا﴾ مصدیہ ہے۔ اور تقدیری عبارت یہ ہے: واللہ خلقکم و عملکم۔ اور یہ اس بارے میں نص ہے کہ انسان کا عمل اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ سوال: کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ﴿مَا﴾ اسم موصول ہو۔ اور آیت کا معنی یہ ہو: اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو؟ اس احتمال کی موجودگی میں یہ کہنا کس طرح ممکن ہے کہ ﴿مَا﴾ موصولہ ہونے کی تقدیر پر یہ آیت بندوں کے افعال کے خلق کی دلیل ہے؟ جواب: جب معمول اللہ کی مخلوق ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ انسان کا عمل اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، اس لیے کہ
Flag Counter