باری تعالیٰ: ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام:۵۴) ’’تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت لکھ دی ہے۔‘‘ کا مقتضی بھی یہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے اس کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : ’’بیشک میری رحمت میری ناراضی پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘[1]
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فینشی اللہ لَہا أقواماً: فید خلہم الجنۃ۔))
’’اللہ تعالیٰ جنت کے لیے کچھ نئے لوگوں کو پیدا فرما کر انہیں اس میں داخل فرمادے گا۔‘‘
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وأضاف ما تضمنتہ الدار ألاخرۃ من الحساب والثواب والعقاب و الجنۃ والنار۔))
’’روز آخرت ان امور پر مشتمل ہوگا: حساب و کتاب، ثواب سزا، جنت اور جہنم۔‘‘
شرح:…’’الاضاف‘‘ انواع و اقسام۔
’’ألحساب‘‘ اس کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔
’’الثواب‘‘ نیکیوں کا بدلہ، ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ ملے گا۔
’’العقاب‘‘ برائیوں کا بدلہ، ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ملے گا، اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔
’’ألجنّۃ‘‘ وہ گھر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ جس میں ہر وہ چیز موجود ہے جسے دل چاہے اور جس سے آنکھوں کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں ایسی ایسی چیزیں ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo﴾ (السجدۃ:۱۷)
’’ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک سے جو کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
جنت اس وقت موجود ہے اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo﴾ (آل عمران:۱۳۳) ’’اسے پرہیز گاروں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔‘‘
اس معنی میں احادیث تو اتر کے ساتھ وارد ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَاشَآئَ رَبُّکَ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍo﴾ (ہود:۱۰۸)
|