Maktaba Wahhabi

358 - 552
اٹھا رکھا ہے جس طرح چھت اپنے اوپر موجود شخص کو اٹھاتی ہے یا اس نے اس پر سایہ کر رکھا ہے، یعنی آسمان اس طرح اللہ تعالیٰ کے اوپر ہے جس طرح انسان پر چھت ہوا کرتی ہے۔ جب کوئی انسان اس طرح کا گمان کرے تو یہ جھوٹا گمان ہے جس سے ان دلائل کو بچانا واجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ سوال : مؤلف رحمہ اللہ کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا: ((ومثل ان یظن ان ظاہر قولہ: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ ﴾ (الحدید: ۱۴) انہ مختلط بالخلق، لان ہذا الظن کاذبا ایضا۔)) جواب : مؤلف رحمہ اللہ یہ کچھ اپنے اس گزشتہ قول میں فرما چکے ہیں : ’’ولیس معنی قولہ: ﴿وہو معکم﴾ انہ مختلط بالخلق‘‘ د وسری بحث: ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ ﴿وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾…)) (البقرۃ: ۲۵۵) ’’اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے۔ شرح:…الکرسی۔ جس طرح کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کرسی دو قدموں کی جگہ کو کہا جاتا ہے۔[1] [وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ] … یعنی اس کی کرسی نے سات آسمانوں اور سات زمینوں کو گھیر رکھا ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر یہ گمان کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ آسمان نے رب تعالیٰ پر سایہ کر رکھا ہے یا اس نے اسے اٹھا رکھا ہے؟جب اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمینوں کو گھیر رکھا ہے تو پھر کسی کو بھی یہ ظن کاذب لاحق نہیں ہونا چاہیے کہ آسمان نے اسے اٹھا رکھا ہے یا وہ اس پر سایہ فگن ہے۔ تیسری بحث: ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہُوَ الَّذِیْ ﴿یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا﴾)) (فاطر: ۴۱) ’’اور وہ اللہ ہی ہے جو تھامے ہوئے ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ وہ ٹل نہ جائیں ۔‘‘ شرح:…وہ انہیں تھامے ہوئے ہے کہ کہیں وہ اپنی جگہ سے ٹل نہ جائیں ، اگر اللہ نے انہیں تھام نہ رکھا ہوتا تو ان
Flag Counter