رافضیوں کے کچھ مخصوص عقائد ہیں ، ان کا بدترین عقیدہ یہ ہے کہ امام معصوم ہوتا ہے اور اس سے غلطی کا صدور نہیں ہو سکتا، اور یہ کہ مقام امامت مقام نبوت سے اعلیٰ وارفع ہوتا ہے، اور یہ اس لیے کہ امام اللہ تعالیٰ سے براہ راست اخذ کرتا ہے جبکہ نبی جبرئیل امین کی وساطت سے، بلکہ غالی قسم کے شیعہ تو امام کے خالق ہونے تک کا دعویٰ کرتے ہیں جو کلمہ کن سے اشیاء کو وجود میں لا سکتا ہے۔
رافضی شیعہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافر تھے۔ والعیاذ باللہ۔ اور وہ تمام کے تمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے، یہاں تک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی کافر تھے اور انہیں نفاق پر موت آئی۔ والعیاذ باللہ۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صرف اہل بیت اور چند ایسے لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہیں ، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اہل بیت کے طرف دار تھے۔
کتاب ’’الفصل‘‘ کے مؤلف کہتے ہیں : ’’غالی قسم کے شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کافر کہتے ہیں ، اس لیے کہ انہوں نے ظلم اور باطل کی تائید کرتے ہوئے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی بیعت کی جب کہ انہیں اس سے انکار کر دینا چاہیے تھا، جب انہوں نے حق وانصاف کا دامن نہ پکڑا اور ظلم کا ساتھ دیا تو ظالم وکافر قرار پائے۔‘‘ جہاں تک خوارج کا تعلق ہے تو وہ رافضی شیعوں کے برعکس حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابوسفیان کو کافر کہتے ہیں ، ان کے نزدیک ہر وہ شخص کافر ہے جو ان (خوارج)کے طریقہ کو اختیار نہیں کرتا، خوارج مسلمانوں کے قتل کرنے کو مباح خیال کرتے ہیں ، انہی لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا: ’’ان کا ایمان ان کے نرخروں سے آگے نہیں بڑھے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘[1]
شیعہ اہل بیت کے بارے میں یہاں تک غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں کہ ان میں سے بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ، جبکہ بعض کا دعویٰ ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں زیادہ نبوت کے حق دار تھے، جبکہ خوارج کا عقیدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
رہے اہل السنہ والجماعہ، تو وہ ان دونوں گروہوں کی افراط وتفریط کے درمیان راہ اعتدال پر گامزن ہیں ۔ ان کا کہنا ہے، ہم اہل بیت کو ان کے مقام ومرتبہ پر اتارتے ہیں ، ہمارے نزدیک ان کے ہم پر دو حق ہیں ، ایمان واسلام کا حق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری کا حق، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کا ہم پر یقینا حق ہے مگر ان کا ہم پر یہ بھی حق ہے کہ ہم انہیں ان کے مقام ومرتبہ پر اتاریں اور اور ان کے بارے میں غلو سے کام نہ لیں ، اہل سنت کا دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہنا ہے کہ ہم پر ان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کی تعظیم وتوقیر کریں اور ان سے راضی ہیں ، اور یہ کہ ان کے بارے میں ہمارا رویہ اس ارشاد باری تعالیٰ کا عکاس ہو:
|