اللَّوَّامَۃِ﴾ (القیامۃ: ۲) ’’میں قسم اٹھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔‘‘ ان دونوں کو شامل ہوگا۔ اگر آپ امر واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو نفس مطمئنہ آپ کو ملامت کرے گا، اسی طرح وہ کسی حرام فعل کا ارتکاب کرنے پر بھی آپ کو ملامت کرے گا۔
اس کے برعکس نفس شریرہ اچھے اعمال کی سر انجام دہی پر بھی آپ کو ملامت کرے گا، اور حکم برائی کے ارتکاب میں کوتاہی برتنے پر بھی آپ کو ملامت کرے گا۔
اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسِیْ سے مراد برائی کا حکم دینے والا نفس ہے۔
[وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا۔ ] … الدابۃ، زمین پر چلنے پھرنے والی ہر چیز، یہاں تک کہ اپنے پیٹ کے بل رینگنے والی چیزیں بھی اس حدیث میں داخل ہیں ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّائٍ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہِ﴾ (النور: ۴۵)
’’اور اللہ ہی نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا ہے، پھر ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح:﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا﴾ (ہود: ۶)’’اور زمین میں چلنے پھرنے والی ہر چیز کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
اگرچہ عرف میں اس لفظ کا اطلاق چوپایوں پر ہوتا ہے، اور عرف خاص میں صرف گدھوں پر، مگر اس حدیث میں اس سے مراد زمین پر چلنے پھرنے والا ہر جاندار ہے، ان میں سے بعض جانور اپنی ذات کے اعتبار سے محض شر ہوتے ہیں ، جبکہ بعض جانوروں میں شر بھی ہوتی ہے، اور خیر بھی۔ یہاں تک کہ خیر کے حامل جانور بھی شر سے محفوظ نہیں ہوتے۔ ’’اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا‘‘ الناصیۃ: سر کا اگلا حصہ، پیشانی، سر کے اگلے حصے کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی اونٹ اور اس جیسے دوسرے جانوروں کو چلایا جاتا ہے، اس کی تخصیص کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جس مخ میں تصور اور تلقی کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ سر کے اگلے حصے میں ہی موجود ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
[اَنْتَ الْاَوَّلُ ؛ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ ] … الاول: اللہ کا نام ہے، جس کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ: ’’تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘
ہم نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں بتایا ہے کہ فلاسفہ اللہ تعالیٰ کو (القدیم) کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، اور ہم نے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ اس کا شمار اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں نہیں ہوتا اور یہ کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو موسوم کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اس کے بارے میں خبر دینا جائز ہے، خبر کا باب تسمیہ کے باب سے زیادہ وسیع ہے، (القدیم) میں ایک نقص ہے اور وہ یہ کہ کبھی کوئی چیز کسی نسبت سے بھی قدیم ہو سکتی ہے، کیا آپ نے یہ ارشاد باری ملاحظہ نہیں فرمایا:
﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِo﴾ (یٰسٓ: ۳۹)
’’اور ہم نے چاند کی کئی منزلیں مقرر کی ہیں ، یہاں تک کہ وہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی قدیم شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘
قدیم شاخ حادث ہے مگر وہ اپنے مابعد کی نسبت سے قدیم ہے۔
|