’’جس طرح قرآن کے محتویات پر ایمان لانا واجب ہے اسی طرح ان چیزوں پر بھی ایمان لانا واجب ہے جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا ان صحیح احادیث میں وصف بیان کیا ہے، جنہیں اہل معرفت نے قبولیت کا درجہ دیا ہے۔‘‘
شرح:…[ مَا ]…شرطیہ ہے، ’’وصف‘‘ فعل شرط اور ’’وجب الایمان بہا‘‘ جواب شرط ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کے جو اوصاف بیان فرمائے اور جن ناموں سے موسوم کیا ان پر بھی ایمان لانا واجب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو کچھ ایسے ناموں سے بھی موسوم کیا ہے جو کہ قرآن میں موجود نہیں ، مثلاً (الشافی) آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ((وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَائَ اِلَّا شِفَائُ کَ۔))’’میرے اللہ! شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، کوئی شفا نہیں ہے مگر تیری شفا۔‘‘[1]
[الرّب]… یہ لفظ قرآن مجید میں اضافت کے بغیر استعمال نہیں ہوا، مگر سنت میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’رہا رکوع تو اس میں رب تعالیٰ کی تعظیم بیان کرو۔‘‘[2] اور آپ نے مسواک کے بارے میں فرمایا: ’’وہ مومن کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا مندی کے حصول کا ذریعہ ہے۔‘‘[3]
مؤلف رحمہ اللہ کے کلام سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبول احادیث کی دو شرطیں ہیں :
پہلی شرط: وہ احادیث صحیح ہوں ۔
دوسری شرط: احادیث کی معرفت رکھنے والوں نے انہیں قبول کیا ہو، مگر اس سے یہ مراد نہیں ہے، شیخ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ کو اہل معرفت قبول کرتے ہیں ، اس اعتبار سے یہ صفت، صفت کاشفہ ہے، نہ کہ صفت مقیدہ۔
[الَّتِیْ تَلَقَّاہَا]…یہ احادیث صحیحہ کی حالت کا بیان ہے یعنی اہل معرفت اس قسم کی احادیث کو قبول کرتے ہیں اس لیے کہ ان کی طرف سے صحیح احادیث کو قبول کرنے سے انکار کرنا امر مستحیل ہے، وہ انہیں رد نہیں کرتے بلکہ قبول کرتے ہیں ۔
یہ بات صحیح ہے کہ بعض احادیث بظاہر صحیح ہوتی ہیں مگر وہ کسی وجہ سے معلول ہوتی ہیں ، اس قسم کی احادیث کا صحیح احادیث میں شمار نہیں ہوتا۔
[وَجَبَ الْاِیْمَانُ بِہَا]…اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ (النساء: ۱۳۶)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔‘‘
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ (النساء: ۵۹)
|