Maktaba Wahhabi

295 - 552
متعدی کیا گیا ہے، جو کہ غایت پر دلالت کرتا ہے۔ چہروں سے صادر ہونے والی نظر آنکھ کے ذریعہ سے ہوتی ہے، جبکہ دلوں سے صادر ہونے والی نظر بصیرت، تدبر اور تفکر کے ساتھ ہوتی ہے اس جگہ نظر چہروں سے رب تعالیٰ کی طرف صادر ہو رہی ہے اور اس کی دلیل ﴿اِِلٰی رَبِّہَا﴾ ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ خوبصورت اور تروتازہ چہرے جب اپنے رب کی طرف دیکھیں گے تو ان کے حسن میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت کے دن چہرے آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا، اہل سنت کا یہی قول ہے۔ وہ اپنے اس قول کے لیے مؤلف کی طرف سے ذکر کردہ قرآنی آیات اور احادیث متواترہ سے استدلال کرتے ہیں ۔[1] اس بارے میں وارد نصوص قطعی ثبوت اور قطعی دلالت کی حامل ہیں اس لیے کہ وہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ میں سے ہیں ۔ اہل سنت کا قول ہے کہ اس جگہ آنکھوں سے دیکھنا حقیقت پر مبنی ہے مگر اس سے ادراک لازم نہیں آتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾ (الانعام: ۱۰۳) ’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔‘‘ اسی طرح علم بالقلب سے بھی ادراک لازم نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا﴾ (طٰہ:۱۱۰) ’’وہ ازروئے علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ ہم اپنے دلوں سے اپنے رب کا علم رکھتے ہیں مگر ہم اس کی کیفیت اور حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے ہم قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے رب تعالیٰ کو دیکھیں گے، مگر اس کا ادراک نہیں کر سکیں گے۔ دوسری آیت:﴿عَلَی الْاَرَائِکِ یَنْظُرُوْنَ ﴾ (المطففین:۳۵)’’تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ شرح:…[الْاَرَائِکِ]… أَرِیْکَۃٌ کی جمع ہے، آراستہ و پیراستہ شاہانہ تخت۔ [یَنظُرُوْنَ]… منظور الیہ کا ذکر نہیں کیا گیا، لہٰذا یہ حکم ہر اس چیز کے لیے عام ہے، جسے دیکھ کر وہ لطف اندوز ہوں گے۔ جن میں سے سب سے باعظمت اور پُراز نعمت چیز اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ قرآن کہتا ہے: ﴿تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِo﴾ (المطففین:۲۴) ’’آپ ان کے چہروں میں نعمتوں کی ترو تازگی پہچان لیں گے۔‘‘ اس آیت کا سیاق اس ارشاد ربانی جیسا ہے: ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌo اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ o﴾ (القیامۃ: ۲۳) ’’اس دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ وہ ہر اس چیز کو دیکھ رہے
Flag Counter