ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے سے عاجز آجاتا تو ان میں سے کسی کا بھی الٰہ ہونا صحیح نہ ہوتا، اس لیے کہ الٰہ عاجز نہیں ہوتا۔
دوسری صورت یہ ہوتی کہ ان میں سے ایک دوسرے پر غالب آجاتا اور پھر غالب آنے والا الٰہ قرار پاتا۔ دریں حالات ضروری ٹھہرتا ہے کہ کائنات کا ایک ہی الٰہ ہو اور پوری کائنات کا نظام چلانے پر اکیلا ہی قادر ہو۔
جب ہم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صدور ایک ہی مدبر سے ہوا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ تناقض کا شکار ہوتی۔ مثلاً ایک الٰہ کہتا کہ میں مغرب کی طرف سے سورج چڑھانا چاہتا ہوں اور دوسرا کہتا کہ میں اسے مشرق سے چڑھانا چاہتا ہوں ، ظاہر ہے دونوں کے ارادوں کا متفق ہونا بڑا بعید ہوتا اور ہر ایک اپنی رائے دوسرے پر تھونپنا چاہتا۔
ہمارے مشاہدے میں کبھی ایسا نہیں آیا کہ سورج کبھی ادھر سے طلوع ہوا ہو اور کبھی ادھر سے یا کسی دن تاخیر سے طلوع ہوا ہو، اس لیے کہ دوسرے نے اسے بروقت طلوع ہونے سے روک دیا ہے یا وہ وقت سے پہلے طلوع ہوگیا ہو، اس لیے کہ پہلے نے دوسرے کو اسے اسی وقت طلوع کرانے کا حکم دیا ہے۔
کل کائنات میں وحدت اور تناسق وتناسب ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مدبر ایک ہے اور وہ ہے اللہ جل جلالہ۔
اللہ تعالیٰ نے عقلی دلیل کے ساتھ اس بات کو واضح فرما دیا کہ تعدد الٰہۃ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔
سوال : کیا ان کا کسی ایک بات پر متفق ہو جانا اور ہر ایک کا اپنی اپنی مخلوق کے ساتھ منفرد ہونا ممکن نہیں ہے؟
جواب : اگر ایسا ممکن ہوتا اور واقعی ایسا ہو بھی جاتا تو اس سے کائنات کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ پھر ان کا کسی بات پر متفق ہونا صرف اس بات کا نتیجہ ہوتا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک بھی ربوبیت کے قابل نہ ہوتا۔
[سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ]… یعنی اللہ اس چیز سے منزہ ہے، جس کے ساتھ ملحدین اور مشرکین اس کا وصف بیان کرتے ہیں اور اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس کے شایان نہیں ہیں ۔
[عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ]… غیب وہ چیز ہوتی ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو اور شہادت وہ جو لوگوں کے مشاہدہ میں ہو۔
[فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ]… یعنی وہ ان بتوں سے برتر ومنزہ ہے جنہیں مشرکین نے اللہ کے ساتھ معبود بنا رکھا ہے۔ ان دو آیات میں مندرجہ ذیل صفات نفی کا ذکر ہے:
اللہ تعالیٰ کا اولاد سے منزہ ہونا۔
الوہیت میں شریک سے منزہ ہونا۔
اور یہ نفی اس کے کمال غنی اور کمال ربوبیت والوہیت کی وجہ سے ہے۔
گیارہویں آیت: ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o﴾ (النحل: ۷۴) ’’اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو، بیشک اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔‘‘
|