Maktaba Wahhabi

202 - 552
بھی کمی نہیں کی۔ اس قسم کے صیغے عدم نقص میں مبالغہ کے لیے لائے جاتے ہیں ، اس لیے کہ اس صورت میں سمندر میں کمی نہ آنا جانی پہچانی بات ہے۔ جس طرح اس سے سمندر میں کمی آنا امر مستحیل ہے اسی طرح جب جنوں اور انسانوں میں سے ہر ایک ایک فرد میدان میں کھڑا ہو کر اللہ سے سوال کرے اور پھر وہ ان سب کی ضروریات پوری کر دے تو اس سے اللہ کے خزانے میں معمولی سی بھی کمی نہیں آئے گی۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ: ’’اس کے خزانے میں اس لیے کمی نہیں آتی کہ ایک چیز اس کی ملکیت سے نکل کر پھر اس کی ملکیت میں منتقل ہو جاتی ہے۔‘‘ اس لیے کہ اس سے یہ معنی مراد لینا ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ معنی مراد لیا جائے تو پھر بات لغو اور بے مقصد قرار پائے گی۔ اگر آپ کے پاس دس روپے ہوں اور آپ انہیں ایک جیب سے نکال کر دوسری جیب میں ڈال لیں اور پھر کوئی آدمی یہ کہے کہ آپ کے مال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، تو اس کی یہ بات لغو ہوگی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سائلین کو جو کچھ دیا اگر وہ اس کی ملکیت سے خارج بھی ہو جائے تو بھی اس سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ ہم پر اللہ تعالیٰ صرف روپے پیسے اور مال ومتاع کی صورت میں خرچ نہیں کرتا، بلکہ بارش کا ایک ایک قطرہ اور غلے کا ایک ایک دانہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے، ہمارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں ، وہ دینی ہوں یا دنیاوی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں ۔ کیا اس کے بعد بھی ملعون یہودیوں کی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ: ’’اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ؟‘‘ نہیں ، اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہے، اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں ، اس کے عطیات اور انعامات اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر وہ یہ کہیں کہ پھر ایسا کیوں ہے کہ اللہ زید کو دیتا ہے اور عمرو کو نہیں دیتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مکمل اختیار کا مالک ہے، اور اس کا ہر کام حکمت بالغہ پر مبنی ہوا کرتا ہے، اسی لیے اس نے ان کے شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ ’’وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘ وہ کسی کو زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم، جب کہ کسی کو درمیانی مقدار میں ۔ اور یہ سب کچھ اس کی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، مگر یہ بات یاد رہے کہ جس کسی کو اس نے کم دیا ہے وہ دوسری جہت سے اس کے فضل کرم اور عطاء سے محروم نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے صحت وتندرستی، سماعت وبصارت اور عقل وشعور سے نوازا اور ان کے علاوہ ان گنت نعمتیں عطا فرمائیں ، مگر یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی، سرکشی اور عداوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو صفات عیب سے منزہ تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے بارے میں یہ گستاخانہ بات کہہ ڈالی کہ ’’اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔‘‘ گزشتہ دو آیات میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو ہاتھوں کا اثبات کیا گیا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو سے زیادہ ہاتھ ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر وہ اس قرآنی آیت کو پیش کر سکتا ہے:
Flag Counter