Maktaba Wahhabi

127 - 552
’’اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ فرمان: ’’وہ اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ شرح:…[وَقَوْلُہُ سُبْحَانَہُ] … یہ لفظ ’’سورۃ‘‘ پرمعطوف ہے جو کہ مؤلف کے قول: ’’ما وصف بہ نفسہ فی سورۃ الاخلاص‘‘ میں مذکور ہے ۔ [اَ لْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُوَالْبَاطِنُ ] … یہ چاروں اسماء زمان ومکان میں باہم متقابل ہیں ، جو اس بات کا فائدہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اول سے آخر تک ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، اور یہ احاطہ زمانی بھی ہے اور مکانی بھی۔ [ہُوَالْاَوَّلُ] … الاوّلکی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے: ’’جس سے قبل کوئی بھی چیز موجود نہیں تھی۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات کی تفسیر نفی کے ساتھ فرمائی اور صفت ثبوتیہ کو صفت سلبیہ قرار دیا اور ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ صفات ثبوتیہ بہت زیادہ بھی ہیں اور زیادہ کامل بھی مگر کیوں ؟ اس لیے کہ یہ تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جس سے مقصود اولیت کی تاکید ہے، یعنی یہ اولیت مطلقہ ہے نہ کہ اضافیہ، تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ مابعد کے اعتبار سے اول ہے، جبکہ اس سے قبل بھی کوئی چیز موجود تھی، لہٰذا اس کی امر سلبی کے ساتھ تفسیر کرنا اس کے عموم پر زیادہ دلالت کرتا ہے جس سے یہ بتاتا مقصود ہے کہ یہ اولیت مطلقہ ہے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا: ’’اس سے قبل کوئی چیز نہیں تھی۔ آپ کا یہ ارشاد تقدم زمنی کے اعتبار سے ہے۔ [وَالْآخِرُ] …اس کی تفسیر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے: ’’جس کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔‘‘کسی کو وہم نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ کی آخریت کی غایت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو کہ ابدی ہیں حالانکہ وہ مخلوق ہیں ، مثلاً جنت اور جہنم۔ اس بنا پر ﴿الْآخِرُ﴾ کا معنی ہوگا کہ اس نے ہر شے کا احاطہ کر رکھا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ﴾(التوبۃ:۳۳) ’’اللہ تو وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر برتری دلادے۔‘‘ ’’ظہر الدّابۃ‘‘ اسی سے ماخوذ ہے بمعنی جانور کی پیٹھ۔ اس لیے کہ وہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ یہ ارشاد باری تعالیٰ بھی اسی معنی میں ہے:﴿فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْہَرُوْہُ﴾ (الکہف:۹۷)یعنی وہ ان پر برتری حاصل نہ کر سکے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ جس کے اوپر کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ پس وہ ہر شے پر برتر ہے۔ [وَالْبَاطِنُ] … آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں فرمایا: ’’ جس کے آگے کوئی چیز نہیں ۔‘‘ یہ ہر چیز کے احاطہ سے کنایہ ہے۔ مگر اس کا معنی یہ ہے کہ اگرچہ وہ اعلیٰ وبرتر ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ باطن بھی ہے، اس کا علو اس کے قرب کی
Flag Counter