Maktaba Wahhabi

383 - 516
اسی طرح اگر دشمن شہر پر حملہ آور ہو جائے تو ان حالات میں عورتوں سمیت اس شہر کے سب باشندوں پر دفاع اور لڑائی فرض ہو جاتی ہے۔ آج کفارِ عالم مسلمان مجاہدین کے جذبۂ جہاد کو کچلنے کے لیے جہاد کو دہشت گردی اور مسلمان کو دہشت گرد کے طور پر اُچھال رہے ہیں اور اُن کی یہ سازش اس حد تک کامیاب ہے کہ خود مسلمان بھی اسے دہشت گردی ہی سمجھنے لگے ہیں جبکہ آج ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ پوری دنیا کو واضح الفاظ میں بتا دیں کہ اسلام تو سلامتی کا مذہب ہے، اس کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اس لیے کوئی سچا مسلماں ہرگز دہشت گرد نہیں ہو سکتا… دہشت گردی کیا چیز ہے؟ آئیے یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں: فرض کریں کہ آپ اپنے گھر میں امن و سکون سے رہ رہے ہیں، علاقے کا ایک غنڈہ اسلحہ لے کر آتا ہے، آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھ جاتا ہے اور گھر کی خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا آپ اسے اپنے گھر سے باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگتے ہیں (حالانکہ آپ کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں ہے) تو آپ ہی بتایئے کہ آپ کی یہ کوشش جہاد ہو گی یا دہشت گردی؟ یقینا آپ اسے جہاد کہیں گے۔ دراصل جہاد کی تمام اقسام میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، ظلم ،شر اور فتنہ و فساد کو مٹایا جائے، جانوں اور مالوں کا تحفظ کیا جائے، حق و عدل کا بول بالا ہو، خیرات و فضیلت کے کام عام ہوں اور دین اسلام کا بول بالا ہو جائے۔ آج کل کے دور میں ’’میڈیا‘‘ ایسا مؤثر اور عالم گیر ہتھیار ہے کہ لڑنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی اذہان، خیالات اور نظریات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس لیے آج کی ضرورت کے پیش نظر ہمیں میڈیا کے اس ہتھیار کو مثبت طریقے سے لازماً استعمال میں لانا چاہیے اور دینی لیکچرز، معلومات اور پروگراموں کے ذریعے جہاد کرنا چاہیے۔ اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں مثبت ترقی کرنے کے علمی جہاد کو بھی ہرگز
Flag Counter