بِالْحَقِّ﴾ (الاعراف: ۵۳)
’’وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کے انجام کا، جس دن اس کا انجام سامنے آئے گا تو کہیں گے وہ لوگ جو اسے اس سے پہلے بھول چکے تھے کہ یقینا ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے۔‘‘
اس کا معنیٰ یہ ہے کہ انہیں جس چیز کے آنے کی خبر دی گئی تھی یہ لوگ اس کے انجام کا انتظار کرتے رہے، پھر جس دن خبر دی گئی چیز آئے گی تو جو لوگ اسے قبل ازیں بھول چکے تھے وہ کہیں گے کہ ہمارے رب کے رسول حق اور سچ لے کر آئے تھے۔
جب یوسف علیہ السلام کے والدین اور ان کے بھائی ان کے سامنے سجدہ ریز ہوئے تو وہ گویا ہوئے:
﴿ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْ یَایَ مِنْ قَبْلُ﴾ (یوسف: ۱۰۰)’’یہ ہے میرے پہلے والے خواب کی تعبیر۔‘‘
آپ علیہ السلام کا یہ قول بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ انہوں نے یہ بات ان کے سجدہ کرنے کے بعد فرمائی تھی۔
طلب میں اس کے ورود کی مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری:
﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo﴾ (النصر: ۱)’’جب اللہ کی نصرت اور فتح آئے گی۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں اکثر پڑھا کرتے: ’’پاک ہے تو اے اللہ! ہمارے پروردگار اپنی تعریف کے ساتھ، میرے اللہ! مجھے معاف فرما دے۔‘‘ آپ یہ پڑھ کر قرآن پر عمل فرماتے۔‘‘[1]
(ج) تاویل کا تیسرا معنی ہے، لفظ کو اس کے ظاہر سے ہٹا دینا: یہ قسم محمود بھی ہے اور مذموم بھی۔ اگر تاویل کسی دلیل کی بنیاد پر کی جائے تو محمود ہوگی اور تفسیر کہلائے گی بصورت دیگر وہ مذموم ہوگی اور تحریف کے باب سے ہوگی نہ کہ تفسیر کے باب سے۔ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اہل تحریف اسی کا ارتکاب کیا کرتے ہیں ۔ اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo﴾ (طٰہٰ: ۵) ’’رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘
لفظ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا۔ اس پر استقرار پکڑا اور اس پر علّو اختیار کیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ’’استوی‘‘ ’’استویٰ‘‘ کے معنی میں ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ یہ خود ساختہ تاویل ہے جو کہ درحقیقت تحریف ہے، اس لیے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل اس کے مخالف معنی پر ہے۔ جس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔ ان شاء اللہ
ارشاد باری تعالیٰ : ﴿اَتٰٓی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ﴾ (النحل: ۱) ’’اللہ کا حکم آیا ہی آیا، پس تم اس کی جلدی مت مچاؤ۔‘‘کا معنی ہے: عنقریب اللہ کا حکم آن پہنچے گا۔ اگرچہ یہ معنی ظاہر لفظ کے مخالف ہے لیکن اس پر دلیل ہے اور وہ ہے: (فَلَا تَسْتَجْعِلُوْہُ) ’’اس کی جلدی نہ مچاؤ۔‘‘… اس طرح قرآنی آیت: ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo﴾ (النحل: ۹۶) کا معنی ہے: ’’جب تو قرآن پڑھنے کا ارادہ کرے تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر۔‘‘ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جب تو قراء ت مکمل کرے تو ’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ‘‘ پڑھ لیا کر۔ اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قرائت کرنا چاہتے تو… اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔[2] نہ کہ قراء ت مکمل کرنے پر
|