Maktaba Wahhabi

477 - 552
ان مہاجرین میں سے سر کردہ لوگ چار ہیں :ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ارشاد باری تعالیٰ ﴿یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ رِضْوَانًا ﴾ ان کے اخلاص نیت کی عکاسی کرتا ہے۔اور ﴿یَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ﴾ ان کے تحقیق عمل کی شہادت دیتا ہے۔اور ﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا خلوص نیت سے کیا ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے نہیں کیا۔پھر انصار کے بارے میں فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُ وا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o﴾ (الحشر:۹) ’’اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دارالسلام اور ایمان میں ان کے قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کر کے آتے ہیں اور انھیں جو کچھ دیا گیا ہے اس سے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور وہ دوسروں کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی مبتلا ہوں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انصار کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں : ۱۔ وہ اپنے پاس ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں ۔ ۲۔ جو کچھ مل جائے اس کی وجہ سے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ ۳۔ خود کو لاحق ضرورت کے باوجود دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں ۔ پھر اس بعد ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ…﴾ (الحشر:۱۰) اور وہ ہیں روز قیامت تک احسان و اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے۔ وہ انھیں اخوت سے یاد کرتے، انھیں سابق الایمان بتاتے، اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں ان کے دلوں میں کینہ پیدا نہ فرمائے۔ اب جو شخص بھی اس بارے میں ان کے ساتھ اس سے مختلف رویہ اختیار کرے گا، ان پر کیچڑ اچھالے گا، اور اپنے اوپر عائد ان کے حقوق ادا نہیں کرے گا، تو اس کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہو گا جن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا…﴾ (الحشر:۱۰) جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرنے والے لوگوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: اس میں تعجب والی کوئی بات نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی وفات کی وجہ سے ان کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو اللہ نے چاہا کہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے اجر کا سلسلہ جاری رکھے۔[1] اللہ تعالیٰ نے ﴿وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ فرمایا: یہ نہیں فرمایا: للذین سبقونا بالایمان ۔’’ جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔‘‘ تاکہ سابقین اور قیامت تک آنے والے دوسرے اہل ایمان کو بھی شامل ہو جائے۔
Flag Counter