’’سچ مچ ہونے والی چیز، کیا ہے وہ سچ مچ ہونے والی چیز، اور آپ کو کیا معلوم کہ کیسی کچھ ہے وہ سچ مچ ہونے والی چیز؟
اور سورۃ القارعہ میں فرمایا گیا:
﴿ اَلْقَارِعَۃُ o مَا الْقَارِعَۃُ o وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَۃُ o یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ o وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ o ﴾ (القارعۃ:۱۔۵)
’’کھڑ کھڑانے والی چیز کیا ہے کھڑ کھڑانے والی چیز، اور آپ کو کیا معلوم کہ کیا ہے کھڑکھڑانے والی چیز؟، جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گی، اور پہاڑ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہوجائیں گے۔‘‘
قرآن مجید میں قیامت کے بہت سارے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو کہ بڑے خوفناک اور پریشان کن ہیں ، اور یہ اس لیے کہ قیامت بڑا عظیم واقعہ ہے۔ اگر ہمارا قیامت پر ایمان نہیں ہوگا تو ہم اس کے لیے نیک اعمال نہیں کریں گے، جب تک انسان روز قیامت پر ایمان نہیں لائے گا اور اسے اس کے ان اوصاف سے آگاہ نہیں کیا جائے گا جن سے اسے اس دن کی تیاری کے لیے آمادہ عمل کیاجا سکتا ہو تو وہ ہر گز اس کے لیے عملی زندگی نہیں اپنائے گا۔
رہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو قیامت کے ذکر پر مشتمل بہت ساری ایسی احادیث وارد ہیں جن میں رسول علیہ الصلاۃ والسلام نے اس دن وقوع پزیر ہونے والے حالات و واقعات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جس طرح کہ حوض، پل صراط اور نامہ اعمال وغیرہ کے ضمن میں آگے چل کر آئے گا۔
جہاں تک اجماع کا تعلق ہے، مسلمانوں کا ایمان بالآخرت پر قطعی اجماع ہے، تمام اہل اسلام کے نزدیک قیامت کا منکر کافر ہے۔ اِلَّا یہ کہ وہ جاہل اور اسلام سے اجنبی ہو، ایسے شخص کو اسلام کے اس بنیادی عقیدہ سے آگاہ کیا جائے گا، اگر وہ پھر بھی انکار قیامت پر مصر ہوتو وہ کافر ہے۔
علاوہ ازیں دلائل کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، اور وہ ہیں آسمانی کتب، بایں طور کہ ان کا روز آخرت کے اثبات پر اتفاق ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پر یہودو نصاریٰ کا ہمیشہ سے ایمان رہا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے فوت شدگان کو مرحوم یا اس جیسے دیگر الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا اب بھی روز قیامت پر ایمان ہے۔
دلائل روز قیامت کی پانچویں قسم عقل ہے۔ اور اس طرح کہ اگر یہ دن نہ آنا ہوتا تو وجود کائنات عبث اور لا یعنی قرار پاتا، جبکہ اللہ تعالیٰ عبث سے منزہ ہے۔ آخر ان لوگوں کے ساتھ کون سی حکمت وابستہ ہے جنہیں پیداکرنے کے بعد انہیں کچھ کام کرنے کا پابند بنایا جائے اور کچھ کام کرنے سے روک دیا جائے، بعض امور کو ان کے لیے لازم قرار دیا جائے اور بعض کو مندوب و مستحسن۔ پھر وہ مر جائیں ، اور نہ ان کا کوئی حساب و کتاب ہو اور نہ جزا و سزا؟
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَ نَّکُمْ اِِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِo﴾ (المؤمنون:۱۱۶۔۱۱۵)
|