جب جسم تخلیق ہوکر مکمل ہو چکے ہوں گے، ان کی خلقت مکمل ہونے کے بعد صور میں پھونکا جائے گا اور روحیں جسموں میں لوٹا دی جائیں گی۔
مؤلف رحمہ اللہ کے قول: ((فَتُعَادُ الْاَرْوَاحُ اِلَی الْاَجْسَادِ۔))میں اس امر کی دلیل ہے کہ بعث اِعادہ ہے تجدید نہیں ۔وہ زائل شدہ اور تبدیل شدہ اشیاء کا اعادہ ہے، اس لیے کہ جسم مٹی میں تبدیل ہو چکا ہوگا، ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ ان متفرقات کو جمع کرے گا یہاں تک کہ جسم معرض وجود میں آجائے گا اور پھر روحوں کو ان کے جسموں میں لوٹا دیا جائے گا۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جسموں کو نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا تو ان کا یہ دعویٰ باطل ہے جس کی کتاب و سنت اور انسانی عقل تردید کرتی ہے۔جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ﴾ (الروم:۲۷)
’’اور وہ وہی ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہ اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔‘‘
یعنی اس مخلوق کا اعادہ کرے گا جسے اس نے ابتدامیں پیدا فرمایا۔
اور حدیث قد سی میں ہے: ’’میرے لیے پہلی دفعہ پیدا کرنا اس کے اعادہ سے آسان نہیں ہے۔‘‘ [1]
یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے سب کچھ آسان ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ﴾ (الانبیاء:۱۰۴)
’’جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کرنا شروع کیا تھا ہم اسے پھر دہرائیں گے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَo ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَo﴾ (المؤمنون:۱۶۔۱۵)
’’پھر اس کے بعد تم مرو گے پھر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘
مزید ارشاد ہوتا ہے:
﴿قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌo قُلْ یُـحْـیِیْہَا الَّذِیْ اَنشَاَہَا اَوَّلَ مَـرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَـلْقٍ عَلِیْمٌo﴾ (یٰس:۷۹۔۷۸)
’’کہتا ہے کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جب کہ وہ بہت بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ کہہ دو کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کر لیا تھا اور وہ ہر قسم کی پیدائش کو خوب جانتا ہے۔‘‘
رہی سنت، تو وہ اس بارے میں بڑی کثرت کے ساتھ وارد ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی وضاحت فرماد ی ہے کہ: ’’لوگ ننگے پاؤں ، ننگے جسم اور غیرمختون اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘[2]
|