Maktaba Wahhabi

135 - 552
’’تاکہ تمہیں علم ہو جائے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقینا اللہ نے ہر چیز کو از روئے علم کے گھیر رکھا ہے۔‘‘ شرح:… یہ قرآنی آیات اللہ تعالیٰ کی صفت علم کی تفصیل فراہم کرتی ہیں ۔ پہلی آیت: [یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا] … (ما) اسم موصول ہے، اور یہ عموم کا فائدہ دیتا ہے، مثلاً بارش، زمین میں بویا جانے والا غلہ، مردے، کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں وغیرہ۔ ﴿وَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا﴾ مثلاً پانی اور کھتیاں وغیرہا۔ ﴿وَ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ﴾ مثلاً بارش، وحی، ملائکہ اور اللہ کے احکام۔ ﴿وَ مَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ مثلاً اعمال صالحہ، فرشتے، روحیں اور دعا وغیرھم۔ اس جگہ فرمایا گیا: ﴿وَ مَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ یعنی فعل کو (فی) کے ساتھ متعدی کیا گیا، جبکہ دوسری جگہ فرمایا: ﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ﴾ (المعارج:۴)’’فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔‘‘ یہاں اسے (الی) کے ساتھ متعدی کیا گیا، اور اصل استعمال یہی ہی ہے۔ سوال : اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جگہ (یعرج) کو (فی) کے ساتھ متعدی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ جواب : اس قسم کی مثالوں میں کوفی اور بصری علماء نحو کا اختلاف رہا ہے۔ بصری نحویوں کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں فعل کو معنوی طور پر حرف سے ہم آہنگ کیا جائے گا، جبکہ نحاۃ کوفہ کے بقول حرف کو وہ معنی دیا جائے گا جو فعل کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ بنابریں پہلی رائے کے مطابق (یعرج فیہا) (یدخل) کے معنی پر مشتمل ہوگا، اور اس کا معنی یوں بنے گا: (وما یعرج فیدخل فیہا) اس بناء پر آیت دو چیزوں پر دلالت کرے گی، عروج پر اور دخول پر۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق (فی) کو (الی) کے معنی میں لیا جائے گا اور یہ تناوب بین الحروف کے باب سے ہوگا، مگر اس قول کی رو سے آیت میں کوئی نیا معنی پیدا نہیں ہوتا، آپ کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ لفظ (الی) کو لفظ (فی) میں تبدیل کر دیں گے۔ اسی بناء پر پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اور وہ یہ کہ فعل کو حرف سے مناسب معنی پر مشتمل قرار دے دیا جائے۔ عربی زبان میں اس کی نظیر موجود ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ﴾ (الانسان: ۶) ’’ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پیں گے۔‘‘ حالانکہ پیا تو برتن کے ساتھ جاتا ہے اور چشمے سے پیا جاتا ہے۔ اہل کوفہ کی رائے کے مطابق کہا جائے گا کہ اس جگہ (با) (من) کے معنی میں ہے… یعنی: منہا، جبکہ اہل بصرہ کی رائے کے مطابق (یشرب) کو ایسے معنی پر مشتمل مانا جائے گا جو حرف (باء) سے مطابقت رکھتا ہو، اور وہ معنی ہے: یُرویٰ ’’سیراب کیا جانا‘‘ اور یہ معلوم ہی ہے کہ سیرابی، پینے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح فعل کو اس کی غایت کے معنی پر مشتمل قرار دیا گیا جو کہ ری ’’سیرابی‘‘ ہے۔ اس طرح ہم ﴿وَ مَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ کے بارے میں بھی کہیں گے کہ آسمان میں داخلہ اس کی طرف عروج کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے، اس طرح فعل کو اس کی غایت کے معنی پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔
Flag Counter