Maktaba Wahhabi

131 - 552
اس سے ڈرتا بھی رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متوکل علیہ زندہ ہو یا مردہ، اس لیے کہ یہ سپردگی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ثانیاً: کسی شخص کو اپنا نائب قرار دیتے ہوئے اس پر توکل کرنا، جیسے لوگ بیع وشراء اور اس قسم کے دوسرے نیابتی امور میں وکیل پر توکل کرتے ہیں ، اس قسم کا توکل جائز ہے اور یہ اللہ پر توکل کے منافی نہیں ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیع وشراء اور اس قسم کے دیگر امور میں دوسروں کو وکیل بنایا۔ ثالثاً: غیر اللہ کو سبب قرار دیتے ہوئے اس پر قدرے اعتماد کرتے ہوئے توکل کرنا اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا۔ جس طرح کہ اکثر لوگ تحصیل معاش کے لیے حکمرانوں اور بااختیار لوگوں پر توکل کیا کرتے ہیں ، یہ شرک اصغر کی ایک قسم ہے۔ [عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ] … جب حکم کو کسی وصف کے ساتھ معلق کیا جائے تو وہ اس وصف کی علیت پر دلالت کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ یہ آیت اس طرح کیوں نہیں اتری: (وتوکل علی القوی العزیز) اس لیے کہ اس جگہ بظاہر قوت اور عزت زیادہ مناسب لگتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جن بتوں پر لوگ اعتماد کیا کرتے تھے جب انہیں مردوں کی حیثیت حاصل تھی، تو پھر یہی کہنا مناسب تھا کہ ان مردوں کو چھوڑ کر اس زندہ پر توکل کیجئے جو کبھی نہیں مرے گا۔ جیسے کہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَo﴾ (النحل: ۲۰۔۲۱) ’’جنہیں یہ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں ، وہ مردے ہیں ، زندہ نہیں ہیں اور انہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ ویسے دوسری آیت میں اس طرح بھی فرمایا گیا ہے: ﴿وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ﴾ (الشعراء: ۲۰۷) ’’اور توکل کیجئے بڑے غالب اور بڑے رحم کرنے والے پر۔‘‘ اس لیے کہ اس سیاق میں عزیزیت زیادہ مناسب ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ﴿الْحَیِّ﴾ ایسا اسم ہے جو حیات کی تمام صفات کاملہ کو متضمن ہے اور اس کی حیات کے کمال کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اعتماد کیے جانے کے اہل ہے۔ [لَا یَمُوْتُ] … یعنی کمال حیات کی وجہ سے اسے موت نہیں آئے گی، اس کا ماقبل کے ساتھ تعلق مقصود بہ ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ یہ حیات کامل ہے۔ جسے کبھی فنا نہیں ہونا۔ اس آیت میں اسمائے رب تعالیٰ میں سے ﴿الْحَیِّ﴾ کا ذکر ہوا ہے، جبکہ صفات میں سے حیات اور انتفاء موت کا، جو کہ
Flag Counter