Maktaba Wahhabi

163 - 829
مسائل جلداوّل میں اذان واِقامت کے بیان میں اذان سے قبل الصلوٰۃ والسلام کہنا کے بیان میں مذکورہ حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : اوّلاً:تو اس لئے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے اور اس کمزوری کی دو وجہیں ہیں: ۱۔ اس کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب نامی ایک راوی ہیں جن کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: لیس من اصحاب الحدیث وإنما کان ورّاقا اور ابواحمد حاکم فرماتے ہیں: لیس بالقوی عندہم نیز یحییٰ بن معین کہتے ہیں: ہوکذاب ۲۔ اس کی سند میں محمد بن اسحق ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (( إمام المغازی صدوق یدلس ورمی بالتشیع والقدر )) اُصولِ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہ کرے، تب تک اس کی روایت قابل قبول نہیں اور مندرجہ بالا روایت محمد بن اسحق نے بصیغہ عن بیان کی ہے، اپنے سماع کی تصریح نہیں فرمائی۔(محمد شفیق کمبوہ ،والٹن لاہور) جواب: مشار الیہ حدیث موصوف کی صحیح ابوداؤد میں ہے، انہوں نے کافی وافی بحث سے اس کا حسن ہونا ثابت کیا ہے۔ علامہ نورپوری حفظہ اللہ کا حدیث ہذا کو دووجوہات سے ضعیف قرار دینامحل نظر ہے۔ اوّلاً راوی احمد بن محمدبن ایوب کے بارے میں بعض اصحاب ِفن سے صرف جرح نقل کی ہے جبکہ دیانت و امانت اور انصاف کا تقاضا تھا کہ معدلین کی تعدیل بھی ذکر کرتے پھر جرح و تعدیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق صحت و ضعف کا حکم لگاتے۔افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ عثمان دارمی کا بیان ہے کہ امام احمد اور امام علی بن مدینی اس کے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے: یحسنان القول فیہ۔ ایسے ہی عبداللہ بن احمداپنے والد سے بیان کرتے ہیں: ما اعلم احدا یدفعہ بحجۃ مجھے علم نہیں کوئی بدلائل اس میں جرح و قدح کرسکتا ہو۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے جرح کے باوجود اس کو صالح الحدیث قرار دیا ہے۔ اور ابن حبان نے اس کا تذکرہ ثقات میں کیا ہے۔ابراہیم الحربی نے کہا:وراق ثقہ ہے، جھوٹ کی تلقین کی صورت میں انکاری ہوتا،یعنی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے:لاباس بہ(تہذیب التہذیب :۶۴؍۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ چوتھے درجے کا راوی ہے جو بمطابق اصطلاحِ محدثین قابل حجت ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حافظ موصوف کا رجحان بھی اس کی توثیق کی طرف ہے۔
Flag Counter