Maktaba Wahhabi

636 - 829
بالکل صحیح نہیں۔ ضلع راجن پور کی بستی جھینہ میں جلسہ کے بعد مولانانے ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی اورلوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی۔ جواب: یاد رہے عام حالات میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جواز ہے۔ اس بارے میں قریباً تیس روایات وارد ہیں۔ اصل بات یہ ہے، کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں۔ دیگر مواقع پر بوقت ِ ضرورت اجتماعی دعا کا جواز ہے، جس طرح صلوٰۃِ استسقاء وغیرہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے یا کوئی حاجت مند دعا کے لیے کہہ دے، تو پھر بھی ہو سکتی ہے۔ جلسہ کے موقع پر جن حضرات نے ہا تھ اٹھا کر اجتماعی دعا کی ، ممکن ہے ان کے پیش نظر کسی کی فریاد یا کوئی اور سبب ہو۔ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے؟ سوال: ہمارے مولوی صاحب نے آج کے درس میں فرمایا ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے جیسے دوسرے بدعات کر رہے ہیں ہم بھی ایسے ہی بدعات کر رہے ہیں۔ لہٰذا میں نے کہا تھا کہ عیدین میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے میں نے سنا ہے لیکن انھوں نے کہا ثبوت لاؤ۔ اب آپ سے التماس ہے کہ: ۱۔ کیا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے؟ ۲۔ اگر ثابت نہیں تو یہ بدعت کہاں سے شروع ہوئی؟ ۳۔ اسے آج تک روکا کیوں نہیں گیا؟ اگر پہلے سوال کا جواب نفی میں ہے تو دوسرے دونوں سوالوں کے جواب کی ضرورت نہیں۔ جواب: ۳۰ کے قریب احادیث میں ہاتھ اٹھا کردعا کرنا ثابت ہے۔ امام منذری رحمہ اللہ نے ان احادیث کو ایک تالیف میں جمع کیا ہے۔ اس موضوع پر علامہ سیوطی کی تصنیف’’فض الوعاء‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہے اور بالخصوص عیدین میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی صراحت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ممکن ہے مولوی صاحب موصوف کا مقصود فرضی نماز کے بعد اجتماعی دعا کی نفی کرنا ہو ۔ جس کا عامۃ الناس میں بلا استناد عام رواج ہے۔ صورت ہذا میں ان کا موقف واقعی درست ہے، لیکن اس سے انفرادی ’’بعد الصلوٰۃ المکتوبۃ‘‘ (فرضی نماز کے بعد )دعا کی نفی نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کی تخصیص و ترغیب ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس موضوع پر بعض کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں۔ اس سلسلہ کی معروف کتاب ’’سنیۃ رفع الیدین فی الدعا بعد الصلوات المکتوبۃ لمن شاء۔‘‘ شیخ محمد بن عبد الرحمن یمانی کی تصنیف ہے۔
Flag Counter