Maktaba Wahhabi

243 - 829
(محمد خورشید شاہ، راولپنڈی) جواب: سورۃ جمعہ کی آیت ِکریمہ میں منبری اذان کا بیان ہے۔ پہلی اذان کا نہیں وہ تو خلیفہ ثالث عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوئی اور یہ ضروری بھی نہیں ۔ صرف جواز ہے قرآنی آیت میں وجوب کے وقت کا ذکر ہے۔ اُصولِ فقہ میں قاعدہ مشہور ہے:مالایتم الواجب إلا بہ فھو واجب جس کامفہوم یہ ہے کہ پہلے اپنا کاروبار چھوڑ دینا چاہئے تاکہ آدمی منبری اذان کے وقت مسجد میں پہنچ سکے اور حدیث میں جن گھڑیوں کا بیان ہے وہ صرف فضیلت کی گھڑیاں ہیں ، وجوب کی نہیں ۔ اس سے معلوم ہواکہ قرآنی آیت میں پہلی اذان کی طرف اشارہ تک نہیں اور نہ آج تک کسی مفسر نے اس سے یہ بات سمجھی ہے جو آپ کے ذہن میں ہے۔ اصلاً اذان ایک ہی ہے جس طرح کہ خطیب صاحب نے فرمایا ہے۔اضافی اذان کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ جواز ہے۔ مزید تفصیل کے لئے سابقہ فتاویٰ کی طرف رجوع کریں ۔ کیا جمعہ کی دوسری اذان آج بھی مشروع ہے ؟ سوال: جمعہ کی دوسری اذان آج بھی مشروع ہے یا نہیں؟ جواب: اذانِ عثمانی کا محض جواز ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرنا چاہے تو نہ کرے، لیکن عامل پر نکیر نہیں ہونی چاہیے۔ موضوعِ ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ جماعتی جرائد میں قبل ازیں شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بعض اعتراضات کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ جمعہ کی دو اذانیں کب سے رائج ہوئی، نیز کیا یہ جائز ہے ؟ سوال: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو جمعہ کی اذان ایک ہی تھی لیکن عام طور پر مسجدوں میں دو اذانیں جمعہ کی ہوتی ہیں۔ یہ کب سے رائج ہوئی، نیز کیا یہ جائز ہے ؟ جواب: مدینہ منورہ میں آبادی جب پھیل گئی تو خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پہلی اذان کا اضافہ کردیا۔[1] صحیح بخاری میں یونس کی روایت میں ہے: ((فَثَبَتَ الأَمرُ عَلٰی ذٰلِکَ)) [2] یعنی اس اذان پر اجماع ہوگیا۔’’فتح الباری‘‘ میں ہے:
Flag Counter