Maktaba Wahhabi

236 - 829
نَائِمُکُم وَ یُرجِعَ قَائِمُکُم)) [1] (یعنی سوئے کو جگائے اور تہجد پڑھنے والا فارغ ہوجائے) بیان ہوئی ہے، جس کا تعلق پورے سال سے ہے۔ البتہ یہ سحری کے وقت میں ہے۔ سحری کے لیے نہیں۔ مقاصد کی نشاندہی پہلے ہوچکی ہے۔ دونوں اذانوں کا درمیانی وقفہ بھی تھوڑا ہونا چاہیے، پہلی فجرِ کاذب میں۔دوسری فجرِ صادق میں۔ سحری کی اذان کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے؟ سوال: رمضان المبارک کے علاوہ بعض لوگ گیارہ مہینوں میں سحری کی اذان دیتے ہیں۔ کوئی اسے نفلوں کی اذان بھی کہتا ہے۔ اُس اذان میں تثویب ’’الصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّوم‘‘ بھی نہیں کہتے۔ کیا اس اذان کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے؟ جواب: صبح کی دو اذانیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں دونوں اذانوں پر بایں الفاظ ابواب منعقد کیے ہیں۔’’بَاب الأَذان بعدَ الفجر‘‘ طلوعِ فجر کے بعد اذان کہنے کا بیان اور ’’بَابُ الأَذَانِ قَبلَ الفَجرِ‘‘ یعنی طلوعِ فجر سے قبل اذان کہنے کا بیان۔ پھر مصنف نے ہر تبویب کے تحت تین تین احادیث بیان کی ہیں۔ جن کے ایراد (ذکر کرنے) سے مدعٰی (دعویٰ) کا اثبات مقصود ہے۔ نیز نسائی اور طحاوی; کی روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان اذانوں کادرمیانی فاصلہ اس طرح منقول ہے: ((وَ لَم یَکُن بَینَھُمَا اِلَّا اَن یَّنزِلَ ھٰٰذَا وَ یَصعَدَ ھٰذَا)) یعنی ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ صرف اتنا سا ہوتا کہ ایک اذان دے کر اُترتا اور دوسرا اذان کے لیے چڑھ جاتا۔ اگرچہ اس روایت میں مبالغہ ہے، لیکن اس مبالغہ کا مقصد درمیانی وقفہ کا تھوڑا ہونا ہے۔ طحاوی کی دوسری روایت میں ہے ۔ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ((اِنَّکَ تُؤَذِّنُ اِذَا کَانَ الفَجرُ سَاطِعًا )) یعنی تو اس وقت اذان کہتا ہے جب کہ فجر چڑھنے والی ہوتی ہے۔ یعنی فجرِ کاذب کے وقت میں۔ فجرِکاذب اور صادق میں فرق یہ ہے، کہ صادق وہ ہے جو چوڑائی میں چڑھے اور دائیں بائیں کناروں میں پھیل جائے، بخلاف کاذب کے، جس کا نام عرب لوگ ’’ذَنَبُ السرحان‘‘ (بھیڑیے کی دم) رکھتے ہیں۔ یہ آسمان کی بالائی میں عمودی شکل میں ظاہر ہو کر نیچے اترتی ہے۔ پس پہلی اذان کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter