Maktaba Wahhabi

771 - 829
نہیں ہیں۔ بعض علماء اس کے قائل بھی ہیں اور اکثر اس کی رغبت دلائی جاتی ہے۔براہِ کرم اس کے بار ے میں بھی مفصل جواب درکار ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں۔(محمد عاقل ، نزیل جدہ) جواب: صلوٰۃ التسبیح کے بارے میں وارد، روایت کثرتِ طُرق کی بناء پر کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ اس مسئلہ میں تفصیلی بحث ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہو چکی ہے۔ نمازِ تسبیح پڑھنے کا طریقہ اور نوافل کی جماعت کا حکم: سوال: 1 نمازِ تسبیح پڑھنے کا طریقہ وضاحت سے بیان کریں۔ 2۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ تسبیح کی جماعت کروائی ہے یا اکیلے ہی نمازِ تسبیح پڑھی ہے؟ 3۔نمازِ تسبیح میں تیسرا کلمہ پورا پڑھنا ہے یا نہیں؟ جواب: 1 نمازِ تسبیح کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں! تعداد رکعت۔۴، ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملائی جائے۔ قرأت سے فراغت کے بعد بحالتِ قیام پندرہ دفعہ تسبیح ’’سُبحَانَ اللّٰہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ اَکبَرُ‘‘پڑھے۔ پھر رکوع کیا جائے۔ اس حالت میں مذکور تسبیح دس بار پڑھی جائے۔ پھر بحالت ِ اعتدال مذکور ذکر دس بار۔ پھر سجدہ میں دس دفعہ۔ پھر ما بین السجدتین دس بار۔ پھر دوسرے سجدہ میں دس بار۔ پھر سجدہ سے سَر اٹھانے کے بعد یعنی جلسہ استراحت میں دس بار۔ پس یہ تسبیحات پچھتر (۷۵)بار ہوئیں۔ چار رکعتوں کو اسی انداز سے ادا کیا جائے۔ کثرتِ تسبیحات کی بناء پر، اس نماز کا نام ’’صلوٰۃ تسبیح‘‘ رکھا گیا ہے۔ واضح رہے مذکور تسبیح ہر مقام پر معمول کے مطابق ذکر اذکار(نماز کے اندرمسنون اذکار) کے بعد پڑھی جائے گی۔ نیز اس بارے میں وارد حدیث کی صحت اور ضعف میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ۔ حق بات یہ ہے، کہ روایت ہذا درجہ حسن سے کم نہیں، بلکہ شواہد کی بناء پر اس کو ’’صحیح لغیرہٖ‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا حدیث ہذا بلاشبہ قابلِ عمل و استدلال ہے۔ مزید تفصیل کے لیے: ’’اللّالی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ للسیوطی‘‘ (۲؍۳۷ تا ۴۵، مرعاۃ المفاتیح:۲؍۲۵۳) 2۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نوافل کی جماعت ثابت ہے۔ نمازِ تسبیح بھی نوافل کی قبیل سے ہے۔ لہٰذا اس کی بھی جماعت جائز ہے۔ تاہم أولیٰ وافضل یہ معلوم ہوتا ہے، کہ اس کو انفرادی طور پر ادا کیا جائے۔ تاکہ اطمینان و تسلی سے تسبیحات کی گنتی پوری ہو سکے۔ (واﷲ اعلم)
Flag Counter