Maktaba Wahhabi

240 - 829
اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ فِی الأَولٰی مِنَ الصُّبحِ )) [1] ’’سنن کبُریٰ ‘‘ بیہقی میں ہے: ((إِنَّہٗ کَانَ یُثَوِّبُ فِی الاَذَانِ الاَوَّلِ مِنَ الصُّبحِ بِأَمرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَ سَلَّمَ)) یعنی ابومحذورہ رضی اللہ عنہ صبح کی پہلی اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تثویب کہتے تھے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ ’’الصلوۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ‘‘ کا اضافہ پہلی اذان میں ہونا چاہیے۔ بشرطیکہ دونوں کے درمیان زیادہ وقفہ نہ ہو۔ بصورتِ دیگر یہ اذان خلاف ِمنہج نبوی ہو گی ۔اس کا اندازہ قریباً آدھ گھنٹہ تک کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں ’’مسجد الحرام‘‘ میں یہی انداز معمول بہا(اسی پر عمل ہو رہا) ہے۔ واضح ہو! اس ساری بحث کا تعلق دو اذانوں سے ہے۔ اگر کسی جگہ صبح کی صرف ایک اذان ہو تو وہاں بلاتردّد ((اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّوم)) کا اضافہ اس اذان میں ہو گا۔ اخیر میں یہ بھی یاد رہے کہ دوسری اذان اور اقامت کے مابین وقفہ صرف ہلکی سی دو رکعتوں کا ہونا چاہیے۔ طویل انتظار میں بیٹھے رہنا خلافِ سنت ہے۔(ھذا ما عندی واللّٰه أعلم بالصواب وعِلمُہٗ أتمّ) تہجد اور فجر کی اذان کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟ سوال: تہجد اور فجر کی اذان کا وقفہ کتنا ہونا چاہیے؟ جواب: شرع میں تہجد کی اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے مختلف اوقات میں تہجد پڑھتے تھے۔ [2] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((وَکَانَ لاَ تَشَائُ أَن تَرَاہُ مِنَ اللَّیلِ مُصَلِّیًا إِلَّا رَأَیتَہُ، وَلاَ نَائِمًا إِلَّا رَأَیتَہُ)) [3] ’’تم جب بھی چاہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اور جب بھی چاہو، سوئے ہوئے بھی دیکھ سکتے تھے۔‘‘ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( مَا أَلفَاہُ السَّحَرُعِندِی إِلَّا نَائِمًا ، تعنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم )) [4]
Flag Counter