Maktaba Wahhabi

872 - 829
بے نمازی کا نمازِ جنازہ: سوال: پچھلے ہفتہ ہماری مسجد رحمانیہ اہلِ حدیث محمد حسین گوٹھ عرفات ٹاؤن میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس سے طبیعت بہت الجھ گئی ہے۔ چونکہ میں نے الحمد ﷲ سعودی عرب میں بھی کچھ وقت گزارا۔ لیکن وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوا ۔ ہوا یہ کہ ہماری مسجد میں ایک جنازہ لایا گیا جس کی نمازِ جنازہ امام صاحب نے یہ کہہ کر پڑھانے سے انکار کردیا کہ یہ شخص بے نمازی تھا۔ امام صاحب عالم دین ہیں لیکن ایک خلجان جو پیدا ہو گیا قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ جواب: بے نماز کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ آپ کے امام صاحب نے بصورتِ انکار درست موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (( مَن تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَد کَفَر)) [1] یعنی ’’جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘(۲؍۳۸ تا۵۷) سوال: قرآن و حدیث کے واضح دلائل ہیں کہ بے نماز کافر ہے اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بے نماز کے کافر ہونے پر صحابہ کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے نماز کافر ہے تو کیا اس کی نمازجنازہ پڑھنی جائز ہے کہ نہیں جب کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منافق پر نمازِ جنازہ پڑھنے سے روکا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بے نماز کا نکاح پڑھنا درست ہے کہ نہیں جب کہ قرآن نے روکا ہے کہ مومن مرد مشرک عورت سے نکاح نہ کرے اور نہ مومنہ عورت کا نکاح مشرک مرد سے کیا جائے اور جب کہ اﷲ تعالیٰ نے نماز چھوڑنا مشرکوں کا فعل قرار دیا ہے۔ کیا بے نماز کا نکاح پڑھنے والا گناہگار ہو گا ؟ براہ کرم ان سوالوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جواب: دلائل کی رُو سے صحیح بات یہی ہے، کہ بے نماز کافر ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:((مَن تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَد کَفَرَ )) [2] یعنی ’’جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘ جب اس کا کفر ثابت ہو گیا تو اس سے معلوم ہوا، کہ بے نماز کا جنازہ اور نکاح بھی نہیں پڑھنا چاہیے اور اگر کوئی شخص (واضح) نصوص کی خلاف ورزی وغیرہ کرکے بے نماز کا جنازہ یا نکاح وغیرہ پڑھا دے، تو وہ بنظرِ شرع مجرم ٹھہرتا ہے۔
Flag Counter