Maktaba Wahhabi

688 - 829
’’ابن ماجہ‘‘ میں حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ظہر سے قبل چار رکعات اور اس کے بعد چار رکعات پرمحافظت کی، اللہ اسے آگ پر حرام کر دیتا ہے۔‘‘ حدیث ہذا مجموعے کے اعتبار سے صحیح ہے۔ صحیح بخاری میں بَابُ الرَّکعَتَانِ قَبلَ الظُّھرِ کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہ ((أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَا یَدَعُ أَربَعًا قَبلَ الظُّھرِ)) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔‘‘ ظاہر یہ ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے۔ جب کہ سوال میں مشارٌ الیہ حدیث میں ہے، کہ رات اور دن کی دو رکعتیں ہیں اور صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی پر زور دیا ہے۔ اس بارے میں اولیٰ (زیادہ بہتر) بات یہ ہے کہ ان مختلف احادیث کو دو مختلف حالتوں پر محمول کیا جائے۔ یعنی بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو پڑھتے اور بعض دفعہ چار۔ چنانچہ ’’فتح الباری‘‘(۳؍۵۸) میں ہے: ((وَالأَولٰی اَن یُحمَلَ عَلٰی حَالَینِ۔ فَکَانَ تَارَۃً یُصَلِّی ثِنتَینِ۔ وَ تَارَۃً یُصَلِّی اَربَعًا)) عصر اور عشاء کی چار چار سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنے کا حکم: سوال: کیا ظہر کی چار سنتوں کی طرح عصر اور عشاء کی چار چار سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنا ثابت ہیں؟ اگر ثابت نہیں تو پھر فرضوں سے پہلے کیا پڑھنا چاہیے؟ جواب: عصر سے پہلے چار رکعات نوافل پڑھنے ثابت ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع روایت میں ہے: (( رَحِمَ اللّٰہُ اِمرَأً صَلَّی قَبلَ العَصرِ اَربَعًا )) (رواہ احمد) [2] علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’سندہ حسن‘ اس کی سند حسن درجہ کی ہے اور حدیث علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرماتے ہیں:’سندہ حسن‘ ملاحظہ ہو! حواشی مشکوٰۃ:۱؍۳۶۷۔۳۶۸)اور صاحب المرعاۃ نے بھی حدیث علی رضی اللہ عنہ کو قابلِ حجت قرار دیا ہے ۔(۲؍۱۵۱) اور ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (۱؍۸۰)میں حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما دن اور رات میں دس اور بارہ رکعتوں والی روایت ،جس انداز میں نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اصل ہے ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھنا سنت صحیحہ سے ثابت نہیں۔ البتہ اس وقت ’’تحیۃ المسجد‘‘ یا
Flag Counter