Maktaba Wahhabi

417 - 829
الدین البانی صاحب نے اپنی کتاب ’’صلوٰۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘ میں جَہری نماز میں قرأت خلف الامام سے منع کیا ہے جب کہ سری میں اس کوضروری قرار دیا ہے۔ جواب: جَہری نمازوں میں امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ’’فاتحہ خلف الامام‘‘ پڑھنے کے قائل نہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی بعض روایات کی بناء پر اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ لیکن فی الواقع یہ مسلک مرجوح ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!(مرعاۃ المفاتیح)جلداوّل۔ مقتدی کے فاتحہ پڑھنے کے لیے امام کا سکتہ کرنا : سوال: بعض لوگ قائل ہیں کہ فاتحہ پڑھنے کے بعد امام کو سکتہ اتنا لمبا کرنا چاہیے کہ مقتدی فاتحہ مکمل کرلیں کیا اتنا لمبا سکتہ کرنا ثابت ہے ؟ کیا اسلاف میں بھی لمبے سکتے کا اختلاف رہا ہے؟ ’’تخریج صلوٰۃ الرسول‘‘ میں بس اتنا لکھا ہے کہ فاتحہ کے بعد نہیں بعد والی صورت کے بعد سکتہ ثابت ہے۔ جواب: اتنا لمبا سکتہ ثابت نہیں۔ فاتحہ کے بعد سکتے کا مسئلہ ویسے بھی محلِ نظرہے۔ بعض حنابلہ اس بات کے قائل ہیں۔ نماز میں ثابت شدہ ’’سکتے‘‘ : سوال: نماز میں کہاں کہاں ’’سکتے‘‘ مسنون ہیں؟ تفصیل سے جواب دیں؟ جواب: نماز میں ثابت شدہ ’’سکتے‘‘ دو ہیں۔ ایک تکبیرِ تحریمہ کے بعد، اور دوسرا مکمل قرأت سے فراغت کے بعد۔ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ترمذی کے حاشیہ پر حدیث ہذا کو صحیح کہا ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی بعداز فراغت قرأت سَکتہ کو صحیح کہا ہے ۔اصل حدیث کے اصل الفاظ یوں ہیں: ((عَن سَمُرَۃَ بنِ جُندُبٍ، قَالَ حَفِظتُ سَکتََتینِ فِی الصَّلٰوۃِ : سَکتَۃٌ اِذَا کَبَّرَ الاِمَامُ حَتّٰی یَقرَائَ، وَ سَکتَۃٌ إِذَا فَرَغَ مِن فَاتِحَۃِ الکِتَابِ، وَ سُورَۃٍ عِندِ الرَّکُوعِ)) [1] البتہ راوی ہشیم نے یونس سے فاتحہ کے بعد سکتہ ذکر کیا ہے، لیکن دوسری طرف عبد الوارث بن سعید اور اسماعیل بن عُلیہ نے مکمل قرأت کے بعد ذکر کیا ہے۔ ان کی روایت راجح ہے، کیونکہ اکثر رواۃ نے سکتہ مکمل قرأت کے بعد ذکر کیا ہے۔ فاتحہ کے بعد سکتہ والی روایت کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
Flag Counter