دونوں طرف مخالف سمت سے کندھے پر ڈال لیں یعنی اس کی دائیں طرف بائیں کندھے پر اور بائیں طرف دائیں کندھے پر، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے سر پر کچھ نہ تھا۔ نماز دونوں طرح پڑھنادرست ہے ، سر ڈھانپ کر یا ننگے سر پڑھنا تمام محدثین کے نزدیک سنت میں داخل نہیں۔ نماز میں سر ڈھانپنے کا حکم: سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاسر ڈھانکنے کے سلسلہ میں کیامعمول تھا؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھتے تھے یا سر ڈھانک کر؟ان ہر دو اعمال میں سے کون سا عمل سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہے یااجر و ثواب کے لحاظ سے کون سا عمل دوسرے سے بڑھ کر ہے؟ (ماسٹر لال خان ) جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے دونوں طرح نماز پڑھنا ثابت ہے : ((أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَدْ خَالَفَ بَیْنَ طَرَفَیْہِ) [1] ’’نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھی جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کے دونوں سرے اُلٹے کرکے دوسرے کندھے پر ڈال لیے۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر ننگا تھا۔ نیزبلوغ المرام باب شروط الصلاۃ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب کپڑا فراخ ہو تو اوڑھ لے، یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت میں اوڑھنے کا طریقہ بتایا ہے کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلاف طور پر کرے۔(متفق علیہ) یہ قولی حدیث کی مثال ہے ،جبکہ پہلی حدیث کا تعلق عمل سے ہے۔ اس بارے میں وارد تمام احادیث کی روشنی میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سرڈھانک کر یا ننگے سر نماز پڑھنے کاجواز ہے، کسی ایک جانب کو ترجیح دینا بلادلیل ہے، تاہم شریعت میں عورت کے لئے سرڈھانکنا ضروری قرا ردیا گیا ہے۔ ننگے سر اس کی نماز نہیں ہوتی۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے: ((ان النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قال : لَا یقبَلُ اللّٰہُ صَلٰوۃَ حَائِضٍ اِلَّا بِخِمَارٍ)) [2] ’’اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز بلااوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مرد کے لئے نماز میں سرڈھانکنا ضروری نہیں، اس کو دونوں طرح اختیار |
Book Name | فتاوی ثنائیہ مدنیہ |
Writer | حافظ ثناء اللہ مدنی |
Publisher | مکتبہ انصار السنۃ النبویۃ ،لاہور |
Publish Year | 2016 |
Translator | |
Volume | 2 |
Number of Pages | 829 |
Introduction |