Maktaba Wahhabi

313 - 829
بعض سلف بھی اسی بات کے قائل ہیں، لیکن حدیث ہذا کے بارے میں امام عبدالرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں: کہ ((ھٰذَا حَدِیثٌ مُنکَرٌ)) ’’یہ حدیث منکر ہے۔‘‘منکر ضعیف کی اقسام میں سے ایک ہے۔ ملاحظہ ہو! المغنی ابن قدامہ (۲؍۳۹۶) آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے میں کوئی کلام نہیں۔ اصل یہی ہے۔ بیہقی اور مستدرک حاکم میں روایت ہے:((کَانَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی طَأطَأَ رَأسَہٗ، وَ رَمٰی بِبَصرِہٖ نَحوَ الأَرضِ )) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے،تو سَر جھکاتے اور نگاہ زمین کی طرف رکھتے۔‘‘ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو! صفۃ الصلوۃ للالبانی (ص ۵۸) دورانِ نماز نظر کہاں رکھی جائے؟ سوال: جب آدمی نماز میں کھڑا ہوتا ہے اس وقت اس کی نظر کہاں ہونی چاہیے، کیابالکل سامنے دیکھنا چاہیے یا کہ سجدہ کی جگہ پر؟ جواب: مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ نماز میں نگاہ جائے سجود میں ہونی چاہیے۔ ’’سنن کبریٰ بیہقی‘‘ میں حدیث ہے: (( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِذَا صَلّٰی طَأطَأَ رَأسَہٗ ، وَ رَمٰی بِبَصَرِہٖ نَحوَ الأَرضِ )) [2] جب کہ امام مالک اوران کے ہمنوا اہلِ علم کا خیال ہے کہ نمازی سامنے قبلے کی طرف دیکھے جائے۔ سجود کی طرف نہ دیکھے۔ لفظ ﴿فَوَلِّ وَجھَکَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرَامِ﴾(البقرۃ:۱۴۴) سے ان کا استدلال ہے۔ امام ثوری،ابوحنیفہ، شافعی اورحسن بن حی نے کہا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ جائے سجود کی طرف دیکھے اور شریک قاضی نے کہا ہے، کہ قیام میں جائے سجود کی طرف اور رکوع میں قدموں کی طرف اور سجدے میں ناک کی جگہ کی طرف اور بیٹھک میں اپنی گود کی طرف دیکھے۔( تفسیر قرطبی:۲؍۱۶۰) ’’عون المعبود‘‘ میں ہے کہ سلف اس بات کو مستحب سمجھتے تھے کہ ان میں کسی ایک کی نظر جائے سجود سے تجاوز نہ کرے۔ حاکم رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ اس کو موصول بیان کیا ہے اور انھوں نے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کیا ہے۔(۱؍۳۴۳)۔ تفسیر ’’قرطبی‘‘ اور ’’فتح القدیر‘‘ میں ’’سورۃ النور‘‘ کے شروع میں بھی بعض مراسیل کاتذکرہ ہے۔ جن میں جائے سجود کی طرف نگاہ کی تصریح ہے۔
Flag Counter