Maktaba Wahhabi

753 - 829
کَمَا صَرَّحَ بِہٖ فُقَھَائُ الشَّافِعِیَّۃِ، وَالعَلَامَۃُ الأَمِیرُ الیَمَانِیُّ فِی شَرحِ بُلُوغِ المَرَامِ۔ فَبِأَیِّ دُعَائٍ وَقَعَ۔ کَفٰی۔ وَ حَصَلَ بِہِ المَقصُودُ)) (۲؍۲۲۰،۲۲۱) بعض اہلِ علم نے مشہور دعا’’ اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَیتَ‘‘ کو قنوتِ نازلہ میں ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے ’’شرح مسلم میں فرمایا ہے: صحیح بات یہ ہے، کہ مشارٌ الیہ دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔ شرط نہیں۔‘‘اصل الفاظ ملاحظہ ہوں: (( وَالصَّحِیحُ أَنَّہ لَا یَتَعَیَّنُ فِیہِ دُعَائٌ مَخصُوصٌ، بَل یَحصُلُ بِکُلِّ دُعَائٍ۔ وَ فِیہِ وَجہٌ أَنَّہٗ لَا یَحصُلُ إِلَّا بِالدُّعَائِ المَشھُورِ۔ اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَیتَ إِلٰی آخِرِہٖ ۔ وَالصَّحِیحُ أَنَّ ھٰذَا مُستَحَبٌّ ، لَا شَرطٌ)) (۵؍۱۷۶) اور ’’سُبُل السَّلام‘‘ میں الفاظ یوں ہیں: (( وَ مِن ھُنَا قَالَ بَعضُ العُلَمَائِ : یَسُنُّ القُنُوتُ فِی النَّوَازِلِ، فَیَدعُوا بِمَا یُنَاسِبُ الحَادِثَۃَ ۔)) (۱؍۱۸۵) یعنی ’’اسی بناء پر بعض علماء نے کہا ہے، کہ حوادث میں دعاے قنوت کرنا مسنون ہے۔ انسان حادثہ کے مناسب دعا کرے۔‘‘ اور صحیح مسلم (۵؍۱۷۸) میں ہے: (( وَ یَدعُوا لِلمُؤمِنِینَ ، وَ یَلعَنُ الکُفَّار)) [1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں قنوتِ نازلہ میں مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے تھے۔‘‘دیگر عمومات کے علاوہ روایت ہذا کا اطلاق بھی اس امر کا مؤید ہے۔ وتروں میں غیر مسنون دعاء: سوال: کیا آدمی وتروں میں دعاے قنوت’’ اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَیتَ…‘‘ کے بعد اور بھی کوئی دعا پڑھ سکتا ہے یا کہ نہیں ؟ ایک عالم نے شبہ ڈال دیا ہے کہ اور دعا نہیں پڑھ سکتا۔ جواب: أصلاً مأثور دُعا پر اکتفا کرنا چاہیے، اور اگر کسی وقت بسببِ خاص مسنون دعاؤں کا اضافہ کرلیا جائے، تو بظاہر جواز ہے جس طرح کہ ’’قنوتِ نازلہ‘‘ میں حالات کے اعتبار سے دعاؤں کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
Flag Counter