Maktaba Wahhabi

698 - 829
نمازِ تراویح کے احکام و مسائل آٹھ رکعت تراویح پر زیادہ نوافل کا حکم: سوال: ہماری مسجد ہل حدیث میں ہمارے واجب الاحترام امام صاحب اور دوسرے اہل حدیث بھائی رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں گیارہ رکعت نمازِ تراویح کے علاوہ باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں درج ذیل امور پر روشنی ڈال کر عند اللہ ماجور ہوں: ۱۔ باجماعت نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ ۲۔ صورتِ مسؤلہ میں گیارہ رکعت سے زاید جماعت نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں۔ ۳۔ بعض اہل حدیث بھائی امام محترم کے ان نوافل پڑھانے کی وجہ سے ان کے پیچھے نمازِ فرض ادا نہیں کرتے، کیا ان کا یہ اقدام درست ہے ؟ ۴۔ اگر جماعت میں اختلاف اور فتنہ کا ڈر ہو تو امام ِ محترم کو ان نوافل کو چھوڑ دینا چاہیے یا نہیں؟ جواب: اَقُوْلُ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ جہاں تک نفلی نماز کی باجماعت ادائیگی کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی روایات میں جواز کی صراحت موجود ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ’’بَابُ صَلٰوۃِ النَّوَافِلِ جَمَاعَۃً ذَکَرَہُ اَنَسٌ وَّ عَائِشَۃُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ یعنی نفلی نماز باجماعت پڑھنے کا جواز ، اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ ا ور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمایا ہے۔‘‘ ( جلد اوّل۱۵۸) علاوہ ازیں قصہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَیْنَ تُحِبُّ اَنْ اُصَلِّیْ لَکَ مِنْ بَیْتِکَ قَالَ فَاَشَرْتُ لَہٗ اِلٰی مَکَانٍ فَکَبَّرَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ صَفَّنَا خَلْفَہٗ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ))(ج:۱،ص۶۰)[1] ’’یعنی اے عتبان، تو کہاں پسند کرتا ہے کہ میں تیرے گھر میں تیرے لیے (تیری وجہ سے) نماز پڑھوں ؟ عتبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہمیں اپنے پیچھے صف میں کھڑا کیا۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں!‘‘ نمازِ راویح بھی از قسم نوافل ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو چند راتیں جماعت کے ساتھ پڑھا
Flag Counter