Maktaba Wahhabi

462 - 829
عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نمازِ جمعہ میں سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلَی (الاعلی:۱)‘‘ پڑھنے پر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا۔ بیہقی (۲؍۳۱۱)مصنف عبدالرزاق (۲؍۴۵۱)[1] اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس موقع پر یہی کلمات کہنا بسند ِحسن ثابت ہے۔ 2 تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوالقول المقبول فی تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس موضوع پر عرصہ قبل ماہنامہ ’’محدث‘‘میں ایک تفصیلی فتویٰ جواب در جواب شائع شدہ ہے جو اربابِ ذوق کیلئے کافی مفید ہے۔ اس فتوی میں حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری، سید نذیر حسین دہلوی کی آراء پر تعلیقات کے علاوہ مولانا عطاء اللہ حنیف کا تبصرہ بھی بڑی تفصیل سے موجود ہے۔ دیکھئے محدث:ج۹؍عدد ۱، صفحات۳ تا۲۳ بابت دسمبر ء۱۹۷۸ امام کا مخصوص دنوں میں مخصوص سورتوں کی تلاوت کرنا اور مقتدی کا فاتحہ کے علاوہ دیگر سورتیں پڑھنا نمازِجمعہ میں نماز کی مسنون قراء ت کی بجائے اس سورت کی آخری آیات تلاوت کرنا : سوال: احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن عشاء کی نماز میں سورۃ الجمعہ اور سورۃ المنافقون[2] ، جمعہ کو صبح کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر اور نماز جمعہ میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ قرأت مسنونہ قرار پائی۔ اہلحدیث حضرات بہت پابندی کے ساتھ ان نمازوں میں ’’قرأت مسنونہ‘‘ کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں مگر (کثیر منھم) ’’ان میں سے اکثر‘‘ ان سورتوں کو پورا پورا نہیں پڑھتے بلکہ آدھی آدھی یا آخری تین تین آیات ہی پر اکتفا کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ’’قرأت مسنونہ‘‘ سے نمازیں ادا کر لی ہیں اور یہی تاثر مقتدی حضرات کو دیا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر پوری پوری سورتیں نہ پڑھی جائیں تو کیا تب بھی ’’ قرأت مسنونہ‘‘ ہی کہلائے گی یا بالفاظ دیگر کسی سنت ثابتہ میں( یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل میں) اگر کچھ کمی بیشی کر
Flag Counter