Maktaba Wahhabi

673 - 829
مولانا اثری حفظہ اللہ کی طویل بحث و تمحیص میں مجھے اس کا مستند جواب نظر نہیں آیا، تاہم قیاس و رائے کا سہارا لیتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں: ’’لہٰذا عورت کے لیے ضروری ہے، کہ عام حالات میں بھی پاؤں کی پشت ڈھانپ کر رکھے، کیونکہ یہ بھی ’’ستر‘‘ میں شامل ہے اور جب عام حالت میں بھی یہ حکم ہے، تو نماز میں بھی یہی حکم ہے، کہ عورت کے پاؤں کی پُشت ڈھکی ہوئی ہو‘‘ مسئلے کی جو شق ’’راقم الحروف‘‘ نے عمداً حذف کردی تھی، اس کے بیان کی ضرورت انھیں اس لیے پیش آئی کہ ان کی نگاہ میں دونوں صورتیں باہم مربوط(ملی ہوئی) اور حکماً ایک جیسی ہیں۔ حالانکہ دونوں میں بڑا واضح فرق ہے، جس کی تفصیل آگے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں آئے گی۔ موصوف بنیادی طور پر خلطِ مبحث کا شکار ہو گئے ہیں، حالانکہ مباحث کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا ہی اصحاب علم کی ذمہ داری ہے ، مگر اس فرق تک ان کی رسائی نہ ہو سکی، مزید برآں کہ ضعیف روایت کو سہارا دینے کے لیے انھوں نے فرمایا ہے: کہ ’’اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اس روایت کا مؤید ہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تو کہا ہے: کہ : ((وَالاِجمَاعُ فِی ھٰذَا البَابِ أَقوٰی مِنَ الخَبرَ فِیہِ )) [1] ’’اس بارے اجماع حدیث سے زیادہ قوی دلیل ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’مَیں، صحابہ رضی اللہ عنہم میں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے بارے میں اختلاف نہیں جانتا۔ تمہارے لیے اس بارے میں امہات المسلمین سوال: کے آثار کافی ہیں۔‘‘ انتہی۔ اجماع کی حقیقت: اب دعویٰ اجماع کا جائزہ لینا بھی عدل وانصاف کے لیے ضروری ہے، تاکہ صحیح صورتِ حال واضح ہو سکے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قرآنی آیت: ﴿ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا ﴾ (النور:۳۱)’’ اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ظاہری زینت سے مراد قدم لیے ہیں۔‘‘ [2] صحیح بخاری کے (ترجمۃ الباب)میں فقیۂ مکہ عکرمہ، مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول درج ہے، کہ ((لَو وَارَت جَسَدَھَا فِی ثَوبٍ لَأَجزَأَتہُ ))
Flag Counter