Maktaba Wahhabi

846 - 829
خطبہ عید سننے کا حکم: سوال: جمعہ کے خطبہ کی طرح عید کا خطبہ سننا بھی ضروری ہے یا جو اُٹھ کر جانا چاہے، جاسکتا ہے؟ جواب: عید کے خطبے کا سنناجمعہ کے خطبہ کی طرح ضروری نہیں بلکہ خطبہ نما زکے تابع ہے(یعنی چونکہ نماز عیدین سنت مؤکدہ ہے لہٰذا خطبہ سننا بھی واجب نہیں)۔(فتح الباری:۲؍۴۴۶) بوقت ِضرورت اٹھ کر جانے کا جواز ہے۔ سوال: خطبہ عید سننا ضروری ہے یا نہیں؟ جواب: خطبہ عید سننا ضروری نہیں۔ سنن ابی داؤد وغیرہ میں حدیث ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّا نَخطُبُ، فَمَن أَحَبَّ أَن یَجلِسَ لِلخُطبَۃِ فَلیَجلِس، وَمَن أَحَبَّ أَن یَذہَبَ فَلیَذہَب)) [1] ’’ہم عید کا خطبہ دیں گے، جو خطبے کے لیے بیٹھنا چاہے۔ بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے۔ چلا جائے۔‘‘ علامہ البانی فرماتے ہیں: کہ اس کی سند’’ شیخین‘‘ کی شرط پر صحیح ہے۔ عید کا خطبہ سننا، خطبہ جمعہ کی طرح ضروری ہے ؟ سوال: عید کا خطبہ سننا، خطبہ جمعہ کی طرح ضروری ہے یا جو جانا چاہے جاسکتا ہے؟ نیز کیا سامعین بوقت ِ ِ ضرورت ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب: عید کا خطبہ سننا ضروری نہیں۔ چنانچہ نسائی (رقم: ۱۸۵) ابن ماجہ (رقم: ۱۲۹۰)ابو داؤد (رقم: ۱۱۵۵) میں عبداللہ بن سائب کی حدیث میں ہے، کہ نماز عید کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَمَن اَحَبَّ اَن یَجلِسَ لِلخُطبَۃِ فَلیَجلِس۔ وَ اِن اَحَبَّ اَن یَّذھَبَ، فَلیَذھَبُ)) ’’جو خطبہ کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے، چلا جائے۔‘‘ لیکن ابو داؤد نے اس کو ’’مرسلِ عطاء‘‘ قرار دیا ہے۔ شیخ عبدالقادر ارنؤوط نے جامع الاصول (۶؍۱۴۶) کی تحقیق میں کہا ہے، کہ اسی طرح اس حدیث میں ابن جریح کا ’’عنعنہ‘‘ بھی ہے۔ لیکن علامہ البانی الإرواء (۳؍ ۹۷) میں فرماتے ہیں: کہ ابن جریج کی عطاء سے تمام روایات سماع پر محمول ہیں۔ سوائے اس کے جس میں تدلیس واضح ہو جائے۔ سنن کبرٰی کے حاشیہ پر ابن ترکمانی (۳؍ ۳۰۱)نے بڑے
Flag Counter