Maktaba Wahhabi

189 - 829
(( فَابتَنٰی مَسجِدًا بِفَنَائِ دَارِہٖ، فَکَانَ یُصَلِّی فِیہِ، وَ یَقرَأُ القُراٰنَ )) [1] نیز متبادل جگہ اگر کسی کی شخصی ملکیت ہے تو اس کو ممکنہ توسیع میں شامل نہیں کیا جا سکتا، اور سرکاری جگہ کو مذکورہ بالاشرط کے ساتھ شامل کرنے کا جواز ہے۔سرکار کی حیثیت محض امین کی ہے۔ لیکن سوال کے بعض اجزاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ متبادل راستہ سے عامۃ الناس کو دقَّت کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس بناء پر انتظامیہ کو چاہیے کہ پہلے لوگوں کو مطمئن کرے، ورنہ توسیع کا ارادہ ترک کردے ،مگریہ کہ مخالفین کی وجہِ مخالفت محض مذہبی عصبیت ہو تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ بہر صورت فیصلہ حقائق اور واقعات کی روشنی میں ہونا چاہیے، تاکہ عوام صحیح طور پر راستہ سے مستفید ہوسکیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راستہ پہلا ہو یا دوسرا۔مقصد تو لوگوں کی سہولت ہے۔ (واللّٰہ ولی التوفیق) غصب شدہ زمین پر نماز جائز ہے یا نہیں؟ سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ غصب شدہ زمین پر نماز جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ جواب: اس مسئلے میں اہلِ علم کااختلاف ہے۔ علمائے حنابلہ کے ہاں دو روایتیں ہیں: عدمِ جواز اور جواز۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ، مالک اور شافعی بھی ایک قول کے مطابق جواز کے قائل ہیں۔ صاحب’’ المہذب‘‘ فرماتے ہیں: غصب شدہ زمین میں نماز ناجائز ہے۔ کیونکہ یہاں نماز کے علاوہ عام قیام اور سکونت چونکہ حرام ہے ، اس لیے اس مقام پر نماز میں قیام بطریقِ اولیٰ ناجائز ہو گا البتہ اگر کوئی شخص یہاں نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی۔ کیونکہ ممانعت کا تعلق صرف نماز سے مخصوص نہیں جو اس کی صحت سے مانع ہو۔ امام نووی رقمطراز ہیں: کہ ایسی زمین میں نماز بالاجماع حرام ہے اور ہمارے نزدیک اور جمہور فقہاء اور اصحابِ اصول کے ہاں، اگر نماز پڑھ لی جائے، تو درست ہو جائے گی۔ میرا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے، کیونکہ نہی کا تعلق نفس نماز سے نہیں،جو صحت نماز سے مانع ہو۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! اَلمَجمُوع شَرحُ المُھَذَّب: ۳؍۱۶۵، المغنی:۲؍۴۷۶۔۴۷۷) حکومتی اراضی جو ضرورت سے زائد ہو اسے مسجد کے لیے استعمال کرنا: سوال: کیاگورنمنٹ کی ایسی جگہ پر مسجد تعمیر ہوسکتی ہے جس کا اکثر حصہ گورنمنٹ سے منظورشدہ ہے البتہ کچھ
Flag Counter