Maktaba Wahhabi

465 - 829
مُدرِکِ رکوع سے ہو، کہ اس حالت میں ملنے والے سے قرأت ’’فاتحہ‘‘ ساقط ہو جاتی ہے۔ امام اسحاق بن ابراہیم منظی نے یہی توجیہ کی ہے، جس طرح کہ امام ابن خزیمہ نے ان سے بیان کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب القراء ۃ بیہقی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے موقف کی وضاحت ہو چکی اور عام کم علم مسلمانوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے آگاہ کرنا چاہیے، جن کی اقتداء کا حکم ربانی ہے۔ بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ سری اور جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قرأت ضروری ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تحقیق الکلام، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری۔ چار رکعت فرض نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت پڑھنا: سوال: کیا چار رکعت فرض نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ کے علاوہ بھی کوئی سورت پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ یعنی آخری دو رکعت میں۔ جواب: چار رکعتی فرض نماز کی پچھلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائی جا سکتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں پچھلی دو رکعتوں کا اندازہ پندرہ پندرہ آیتیں بیان ہوا ہے۔[1]، جس سے ظاہر ہے کہ یہ اندازہ فاتحہ کے ساتھ دیگر آیات کو ملا کر ہے۔ ورنہ فاتحہ کی تو صرف سات آیتیں ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’ مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۱؍۶۰۰۔۶۰۲) ظہر اور عصر کی نمازوں میں مقتدی کا فاتحہ کے بعد سورت پڑھنا: سوال: ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام قرأت نہیں کرتا بلکہ خاموشی سے امامت کرتا ہے ان نمازوں میں مقتدیوں کو سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنی چاہیے یا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد خاموش کھڑے ہو کر امام کے رکوع جانے کا انتظار کرنا چاہیے؟ جواب: سرّی نمازوں میں ’’فاتحہ‘‘ کے علاوہ قرأت کے اضافہ کا جواز ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت واضح طور پر اس کی دلیل ہے۔ [2] اور مؤطا امام مالک میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل بایں الفاظ مروی ہے :
Flag Counter