Maktaba Wahhabi

800 - 829
کے موقع پر ۴ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ داخل ہوئے اور آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور آپ ان ایام میں دو گانہ پڑھتے رہے اور یہ قیام بہ نیت عزم بالجزم تھا اور تردّد (شک) کی صورت میں بلاحصر(مسلسل) دوگانہ درست ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافرجب تک اقامت کی پختہ نیت نہ کرے، قصر کر سکتا ہے۔ خواہ کئی سال گزر جائیں۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کتنی مسافت پر قصر کرتے تھے؟ سوال: تعلیم الاسلام از مولانا عبد السلام بستوی کے صفحہ پر رقم ہے کہ ’’سفر کی ادنیٰ مسافت کم از کم ۴۸میل ہے، اس سے کم درست نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والو! تم ۴۸میل سے کم میں قصر مت کرنا۔[2]اور جن روایات میں نو یا تین میل کاذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نو یا تین میل سفر تک گئے تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا۔ اُنیس دن ٹھہرنے کی روایت (بحوالہ بخاری باب مقام النبی:۸؍۸۷صفحہ:۴۲۰)پر لکھتے ہیں کہ ’’قصر ہی کرتا رہے جب تک کہ اکٹھے ہی اُنیس دن سے زیادہ کی نیت کرے۔ اس کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جو ابھی گذری۔‘‘ صحیح موقف کیا ہے؟ جواب: صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین کوس یا تین فرسخ (۹کوس) نکلتے،یعنی سفر کرتے تو قصرپڑھتے۔ اس حدیث کو لمبے سفر پر محمول کرنا ظاہر کے خلاف ہے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے فعلی حدیث مقدم ہے۔ اگر سفر میں کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو بلا تحدید قصر ہوسکتی ہے اور اگر چار دن سے زیادہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو نماز پوری پڑھے۔(تفصیل کے لئے ’’الاعتصام’’:۲۴مئی۱۹۹۶ء ) دورانِ سفر مسافر کا جمعہ کی نماز کے بدلے ظہر کی نماز ادا کرنا: سوال: کیا دورانِ سفر مسافر جمعہ کی نماز کے بدلے ظہر کی نماز اس وقت ادا کر سکتا ہے جس وقت وہ عام دنوں میں پڑھتا ہے؟ اور کیا وہ باجماعت پڑھ سکتا ہے؟ جواب: جمعہ اور ظہر کا وقت زوال کے بعد ہے ۔اگر مسافر حالت ِ سفر میں رخصت پر عمل کرتے ہوئے جمعہ ادا نہ کرے تو پھر معمول کے مطابق ظہر کی نماز ادا کرے گا۔ باجماعت ادائیگی اجر و ثواب میں اضافہ کی موجب ہے ۔ لہٰذا حتی المقدور کوشش ہونی چاہئیے کہ نماز باجماعت ادا ہو۔
Flag Counter