Maktaba Wahhabi

442 - 829
’’یُعجِبُنِی فِی الفَرِیضَۃِ اَن یَّدعُوَ بِمَا فِی القُراٰنِ‘‘ صاحبِ ’’عون المعبود‘‘ اس جملہ کی تشریحات فَالاِمَامُ اَحمَدُ یَخُصُّ ھٰذَا فِی النوافل‘ بل یَستَحِبُّہُ فِی الفَرَائِضِ اَیضًا۔ وَ بِہ قَالَ الشَّافِعِیُّ :)) لیکن مسنداحمد کی روایت میں ساتھ یہ قید بھی موجود ہے :((یَقرَأَہٗ فِی صَلٰوۃٍ لَیسَت بِفَرِیضَۃٍ)) اور بعض روایات میں صلوٰۃ اللیل کی صراحت ہے۔ نیل الأوطار،ص:۲۳۷، جزء:۳، میں ہے: ((وَالظَّاھِرُ استِحبَابُ ھٰذِہِ الاُمُورِ لِکُلِّ قَارِیئٍ مِن غَیرِ فَرقٍ بَینَ المُصَلِّی، وَ غَیرِہٖ، وَ بَینَ الإِِمَام، وَالمنفرد، والمأمُومِ ۔ وَ اِلٰی ذٰلِکَ ذَھَبَت الشافِعِیَّۃ)) لیکن میری نظر میں اولیٰ یہ ہے کہ اس حکم کو صرف قاری پر محصور کیا جائے ۔ جیسا کہ حدیث میں نص موجود ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب وعلمہ اتم) (حافظ ثناء اللہ مدنی) تعلیق از حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری قارئین کرام نے محترم حافظ ثناء اللہ صاحب کا جواب اور اس کے دلائل ملاحظہ فرمائے۔ حافظ صاحب نے اپنا رُجحان یہ ظاہر کیا ہے، کہ یہ جوابی کلمات امام کہے مقتدی نہ کہے، لیکن ہمارے نزدیک اولیٰ اور أقرب الی الصواب بات وہ ہے، جو حافظ صاحب نے ’’نیل الأوطار‘‘ کے حوالہ سے پیش کی ہے۔ یعنی امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ کلمات امام اور مقتدی دونوں کے لیے مستحب ہیں۔ ہم مسئلہ زیرِ استفتاء کی مزید وضاحت کے لیے مفتی جماعت حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ کی تحقیق ہدیہ قارئین پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا علمی وتحقیقی مقام بلا نزاع مُسَلَّم ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہماری جماعت میں اساطینِ علم، شیوخ الحدیث، اربابِ تحقیق اور اصحابِ فتویٰ کثیر اور معقول تعداد میں موجود تھے۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ کہ پورے ہندوستان میں محدث روپڑی کے فتویٰ کو جس عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا، وہ مقام کسی دوسرے اہلِ علم کے فتویٰ کو حاصل نہ ہو سکا۔ ہمارے لیے مزید وجہِ اطمینان یہ ہے، کہ ہمیں تو ہر لحاظ سے محدث روپڑی سے نسبت ہے اور مذکورہ الصدر استفتاء کے مفتی عزیز مکرم مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب کو بھی انھیں سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور وہ بھی اپنے تمام اساتذہ سے زیادہ حضرتِ مرحوم کی تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم حضرت حافظ صاحب،محدث روپڑی رحمہ اللہ کے اپنے اخبار ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ ۱۲
Flag Counter