Maktaba Wahhabi

882 - 829
یعنی’’ یہ وہ بدعت ہے جس میں سنت اور مذہب سلف صالحین سے باخبر کوئی عالم بھی شبہ نہیں کر سکتا۔‘‘ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یوں نقل کی ہے، کہ غائب میت اگر ایسی سَر زمین میں فوت ہوئی جس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ اگر نمازِ جنازہ پڑھی جاچکی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔[1] کیا شہید فی المعرکہ کی نمازِ جنازہ ہے؟ سوال: شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں محدثین کرام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا عمل تھا۔ کیا شہداء کی غائبانہ نمازِ جنازہ جس طرح آج پڑھائی جا رہی ہے اور اس کو سنت قرار دیا جاتا ہے کیایہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں اور جنگ اُحد کا جو حوالہ دیا جاتا ہے اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔ جواب: راجح مسلک کے مطابق ’’شہید فی المعرکہ‘‘ کی نمازِ جنازہ نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر اور انس رضی اللہ عنہما کی روایات میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔ موضوع ہذا پر میرا تفصیلی فتویٰ الاعتصام وغیرہ میں شائع شدہ ہے۔ اس کی طرف مراجعت فرمائیں! امید ہے کہ باعث اطمینان و تشفی ثابت ہو گا۔ مذکورہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات میں شہدائے احد کی نمازِ جنازہ کی نفی ہے۔ میت کی آمد سے قبل جنازہ ادا کرنا : سوال: جنازہ کراچی سے نتھیا گلی کے لیے بذریعہ جہاز روانہ ہوا۔ لوگ نتھیا گلی جمع ہوئے قبر تیار ہوئی اطلاع ملی کہ جہاز بوجہ خرابیٔ موسم واپس کراچی مع جنازہ چلا گیا ہے اور واپسی لیٹ ہوگی۔ کیا وہاں جمع لوگ جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ جب کہ میت ابھی دوران سفر میں ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ میت دوسرے دن یا رات آبائی گاؤں پہنچے گی۔ کیا اس طرح غائبانہ نمازِ جنازہ جائز ہے۔ جواب: غائبانہ جنازہ کا جواز تو ہے۔ نجاشی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( اِنَّ اَخَاکُم قَد مَاتَ بِغَیرِ اَرضِکُم ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَیہِ))[2] ’’تمہارا بھائی غیر زمین میں فوت
Flag Counter