Maktaba Wahhabi

387 - 829
علامہ ابن القیم’’زاد المعاد‘‘ میں فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کہتے ۔ اس سے پہلے کچھ نہ کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی زبان سے نیت کا لفظ نہیں بولا اور نہ کبھی یہ کہا کہ میں اﷲ کے لیے پڑھتا ہوں، فلاں نماز قِبلہ رُخ ہو کر چار رکعت۔ امام یا مقتدی بن کر ،ا داء یا قضاء ، وقتی فرض(ظہر عصر وغیرہ) اور یہ دس بدعتیں ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کبھی صحیح یا ضعیف، مرسل یا متصل قطعاً کوئی لفظ نقل نہیں کیا بلکہ کسی صحابی سے بھی نہیں۔ نماز شروع کرنے سے پہلے زبان سے نیت کرنا : سوال: نماز شروع کرنے سے پہلے زبان سے نیت کرنا کیا ضروری ہے ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور بعض احباب کہتے ہیں کہ پہلے زبان سے نیت کرنا ضروری ہے۔ تفصیل سے جواب دیں؟ جواب: عربی زبان میں لفظِ نیت کے معنی ’’قصد و ارادہ‘‘ کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قصداور ارادہ دل کا فعل ہے اور اہلِ شرع نے اس کی تعبیر یوں کی ہے: (( تَعَلُّقُ القَلبِ نَحوَ الفِعلِ إِبتِغَائً لِمَرضَاۃِ اللّٰہِ )) یعنی ’’اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر دل کو کسی فعل و عمل کے متعلق کر دینے کا نام نیت ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہواکہ زبانی کلامی کے بجائے نیت صرف دل ہی سے ہونی چاہیے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جملہ تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔کسی ایک بھی روایت سے ثابت نہیں ہو سکا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی ’’نیت‘‘ کا اظہار کیا ہو۔ بلکہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((کَانَ یَفتَتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکبِیرِ ، وَ القِرَائَ ۃَ بِالحَمدِ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ )) [1] یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ‘‘سے نماز شروع کرتے اور قرأت کا آغاز’’ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ‘‘ سے کرتے۔‘‘ اور اعرابی والی روایت میں ہے: ((اِذَا قُمتَ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَکَبِّر، ثُمَّ اقرَأ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ القُراٰنِ )) [2] یعنی ’’جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ،۔ پھر بآسانی قرآن سے جو پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔‘‘ ایک اور روایت میں الفاظ یوں ہیں:
Flag Counter