Maktaba Wahhabi

554 - 829
کہہ دیا ہے، کہ وہ کچھ وہم کرتا ہے۔ مگر باوجود اس کے عبد الجبار بن وائل کے استاد کی نسبت انہی کا قول درست ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے قول کو خارج سے تقویت پہنچ گئی ہے۔ وہ یوں کہ عفان بن مسلم بصری نے ہمام بن یحییٰ بصری سے علقمہ بن وائل نقل کیا ہے۔ اس طرح کے بعض اور خارجی قرائن بھی ہیں، جو عبد الجبار کا استاد علقمہ بن وائل ہونے کے متقاضی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ زیادہ ثقہ کی بات کو ہمیشہ ترجیح ہوا کرے۔ بلکہ بعض خارجی شواہد ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیتے ہیں، اور اسی کی بات درست ہوتی ہے۔ پس اس بناء پر ہمام کی روایت کو ترجیح ہونی چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ امام مسلم، ہمام کی روایات اپنی کتاب میں لائے ہیں اور عبد الوارث کی نہیں لائے۔ ملاحظہ ہو! باب وضع یدہ الیمنیٰ الخ، پس جس روایت کو آپ نے اصل خیال کیا تھا، وہ محل استدلال میں فرع بھی نہ رہی۔ اس کے علاوہ مالک بن الحویرث کی حدیث میں سجدہ میں رفع یدین سے مراد مستقل رفع یدین مراد نہ ہو، تواس میں بھی وہی مراد لینا چاہیے۔ تاکہ سب احادیث میں موافقت ہوجائے، اور کسی قسم کا اختلاف نہ رہے۔(عبد اﷲ امرتسری مقیم روپڑ ضلع انبالہ، ۳۰ صفر ۱۳۵۳ھ، ۲۴مئی ۱۹۳۵،ماخوذ از فتاویٰ اہلحدیث (۲؍۱۲۶تا۱۳۴) اور علامہ البانی محدث العصر رحمہ اللہ نے زیرِبحث مسئلہ پر کتاب ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘ کے علاوہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ارواء الغلیل‘‘(۲؍۶۷۔۶۸) پر بھی اجمالاً بحث کی ہے۔ اس سلسلہ میں وارد بعض احادیث و آثار و اقوال پر صحت کا حکم لگایا ہے، جن پر اکثر و بیشتر مناقشہ حضرت الاستاذ محدث روپڑی کے سلسلۂ کلام میں گزر چکا ہے ۔ اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں۔ پھر علامہ موصوف کا اس بارے میں نظریہ یہ ہے، کہ سجود میں رفع الیدین بالإستمرار نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ہے۔ عملاً بندہ نے اپنی مدنی زندگی میں بار ہا موصوف کو نماز پڑھتے دیکھا، بلکہ صف بندی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع میسر آیا۔ موصوف کو سجود میں رفع یدین پر عامل نہیں پایا۔ اس سے بھی اس موقف کو تائید حاصل ہوتی ہے، کہ اصلاً سجود میں رفع یدین کا مسلک کمزور ہے اور عدمِ رفع کا مسلک پختہ ہے اور یہی راجح ہے۔ دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغفِرلِی کہنے کی تعداد: سوال: مولانا صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ’رَبِّ اغفِرلِی‘ دونوں سجدوں کے درمیان کہنا ((ابن ماجہ))اور ’غنیۃ الطالبین‘ میں تین مرتبہ آیا ہے ۔ عبدالرؤف سندھو تخریج میں لکھتے ہیں، کہ دو مرتبہ اور ایک مرتبہ تواکثر آیا ہے، لیکن تین بار نہیں۔ جب کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجود و قیام بعد
Flag Counter