Maktaba Wahhabi

355 - 829
رہے تھے۔‘‘ اور بعض نے اس کے برعکس مسلک اختیار کیاہے، کہ ابوبکر امام تھے۔ جب کہ بعض جمع کے قائل ہیں۔ ان میں سے ابن حبان ، بیہقی، ابن حزم رحمہما اللہ ہیں۔انھوں نے اس قصہ کو تعدد پر محمول کیا ہے، کہ بعض دفعہ ابوبکر رضی اللہ عنہ امام تھے اور بعض دفعہ مأموم۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اختلافِ نقل بھی اس کی مؤید ہے۔ لیکن راجح بات یہ ہے، کہ قصہ ایک ہے اور امامت میں اختلافِ رُواۃ کا تصرف ہے ۔اس سلسلہ میں وارد روایات کے طُرق سے یہ بات عیاں ہے۔ شیخین’’بخاری و’’ مسلم کے اندازِ بیان اور طریقِ کار سے ظاہر ہے، کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے تمام وہ طُرق ذکر کیے جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا ذکر ہے۔ اس کے باوجود اس سے اختلاف کرنے والے رُواۃ بھی ثقہ ہیں۔ انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سِرے سے ذکر ہی نہیں کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں صرف ایک دفعہ نماز مسجد میں پڑھی ہے۔ یہ وہی ہے کہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر پڑھا تھا۔ اس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ پہلے امام تھے۔ بعد میں مأموم بن گئے اور وہ لوگوں تک تبلیغِ تکبیر کے ’’مُبَلِّغ‘‘ تھے۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا ہے، کہ صحیح آثار سے معلوم ہوتا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز کونسی تھی؟ سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جو آخری نماز باجماعت پڑھائی، وہ کون سی تھی؟ جواب: ظہر کی نماز۔[2] جلد باز امام کے ساتھ باجماعت نماز یا انفرادی نماز خشوع سے؟ سوال: آج کل اکثر مساجد میں’’نان سٹاپ‘‘ امام ہوتے ہیں جو اتنی جلدی جماعت کرواتے ہیں کہ آدمی پیچھے سورت فاتحہ نہیں پڑھ سکتا ۔ کیا جو آدمی اسے چھوڑ کر انفرادی نماز خشوع و خضوع سے پڑھے گا، اس کی نماز ہو جائے گی؟ یا وہ جماعت سے ہی نماز پڑھے؟ جواب: حتی المقدور امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ جلد باز امام کو سمجھانا چاہیے۔ قرآن عظیم میں ہے: ﴿ وَ ذَکِّر فَاِنَّ الذِّکرٰی تَنفَعُ المُؤمِنِینَ﴾ (الذاریات:۵۵)
Flag Counter