Maktaba Wahhabi

702 - 829
اسلام میں نئی نئی داخل نہ ہوئی ہوتی، تو میں کعبہ کے دو دروازے بنا دیتا!‘‘ اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((بَابُ مَنْ تَرَکَ الْاِخْتِیَارِ مَخَافَۃَ اَنْ یَّقْصُرَ فَھْمُ النَّاسِ فَیَقَعُوْا فِیْ اَشَدَّ مِنْہُ)) (ج:۱،ص:۲۴) یعنی بعض ایسی چیزوں کو چھوڑ دینے کا باب، جو لوگوں کی سمجھ نہ آسکنے کی بناء پر ان کے لیے فتنہ کا باعث بن جائیں۔‘‘ رہے مقتدی ، تو ان کو چاہیے کہ اپنے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فعل کو نمونہ بنائیں، جب کہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں رباعی(چار رکعتی) نماز کو قصر کی بجائے مکمل پڑھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر قصر کے قائل ہونے کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز مکمل پڑھی۔ لیکن فرمایا: ((فَلَیْتَ حَظِّیْ مِنْ اَرْبَعِ رَکَعَاتٍ رَکْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ)) [1] یعنی ’’کاش، میرا حصہ یہ ہو کہ چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی قبول ہوں۔‘‘ اس پر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ کیوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((الْخِلَافُ شَرٌّ)) [2] ’’اختلاف بُری شئے ہے۔‘‘ اسی کے مشابہ قصہ، صحیح بخاری، میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے۔[3]، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ تھا کہ :((صلٰوۃُ الْمُسَافِرِ رَکْعَتَانِ مَنْ خَالَفَ السُّنَّۃَ کَفَرَ‘ ’’مسافر کی نماز دو رکعتیں ہی ہے۔ جس نے سنت کی مخالفت کی ،ا س نے کفر کیا۔‘‘ پس ان واقعات کی روشنی میں امام و مقتدی ، دونوں ہی کو اس مسئلہ پر شدت اختیار نہ کرتے ہوئے اختلاف سے باز رہنا چاہیے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمائے۔آمین ھٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوََاب ائمہ اربعہ اور آٹھ رکعت نمازِ تراویح : سوال: ائمہ اربعہ میں سے کس کس کے نزدیک آٹھ رکعت تراویح پڑھنا ہی درست ہے؟ جواب: حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے آٹھ رکعت تراویح کوپسند فرمایا ہے۔[4]
Flag Counter