Maktaba Wahhabi

791 - 829
((َدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللہُ بِہَا عَلَیکُم، فَاقبَلُوا صَدَقَتَہُ )) [1] ’’نماز قصر اللہ کی طرف سے صدقہ ہے، اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ چنانچہ حالت سفر میں مسافر کا قیام اگر کسی جگہ چار روز سے کم ہے تو ا س کیلئے قصر کرنا افضل ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ میں داخل ہوئے او ر آٹھ تاریخ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ وہ دن ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم بالجزم کے ساتھ قیام فرمایا اور نماز قصر ہی ادا فرمائی۔ البتہ اگر قیام کی مدت متعین نہ ہو تو اس صورت میں بلا تحدید قصر کر سکتا ہے۔ جنگی مہموں میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف مقامات پر مختلف مدت کے لئے قیام تھا وہ اسی قبیل سے ہے۔ صورتِ سوال میں جن لوگوں کا ذکر ہے، وہ سب مقیم ہی ہیں۔ لہٰذا نماز پوری پڑھیں۔ سفر سے واپسی پر گاؤں میں داخل ہونے پہلے کسی مقام پر قصر نماز پڑھے گا یا پوری؟ سوال: ایک آدمی سفر سے واپسی پر اپنے گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے کسی قریبی گاؤں میں قیام کرتا ہے، تو کیا اس صورت میں وہ قصر نماز پڑھے گا یا پوری؟ جواب: جب تک مسافر اپنی بستی کی حدود میں داخل نہ ہو نماز قصر کرسکتا ہے، اس لیے کہ حکم سفر اس سے ابھی تک زائل نہیں ہوا۔ ۶۵ کلو میٹر کے قریب روزانہ سفر کرنے والا نمازِ قصر ادا کر سکتا ہے؟ سوال: ایک ملازم اپنے گھر سے تقریباً ۶۵ کلو میٹر کے قریب روزانہ ایک طرفہ سفر کرتا ہے۔ کیا وہ اپنے مقامِ ملازمت پر دو گانہ ادا کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا یہ سفر قصر نماز کے لیے کافی نہیں؟ جواب: مسافر ملازم کا اپنے مقامِ ملازمت میں دوگانہ پڑھنا درست نہیں، کیونکہ ایسا شخص حکماً مقیم ہی کہلاتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے ’’فتح القدیر شرح ہدایہ‘‘ میں اس کانام وطن اقامت رکھا ہے، ہاں البتہ اگر دورانِ سفر کہیں نماز کا وقت ہو گیا تو وہاں دوگانہ پڑھنے کی اجازت ہے۔ اس لیے کہ یہ مسافر ہے۔
Flag Counter