Maktaba Wahhabi

425 - 829
(( عَلٰی أَنَّ المَامُومَ یُؤَمِّنَُ، وَ لَو تَرَکَہُ الاِمَامُ سَھوًا، أَو عَمدًا )) (الاُمّ) یعنی ’’مأموم(مقتدی) کو آمین کہنی چاہیے، اگرچہ امام بھول کر یا قصداً چھوڑ دے۔‘‘ اور سائل کے سنن کبریٰ کے حوالہ سے نقل کردہ الفاظ اصل میں نہیں ہیں اور اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہوجائیں، تو ان کا مفہوم وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکا۔ کہ مقتدی کی ’’امین‘‘ آگے پیچھے کی بجائے، امام کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بلکہ امام بیہقی کے قائم کردہ عناوین اس پر دالّ(دلالت کرتے ) ہیں، کہ امام اور مأموم (یعنی مقتدی) دونوں کو آمین کہنی چاہیے۔(سنن کبرٰی) [1] کیا عورتیں بھی آمین بالجہر کیا کریں؟ سوال: آمین بالجہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ کیا عورتیں بھی آمین بالجہر کیا کریں؟ یا انھیں منع کیا گیا ہے اگر منع کیا گیا ہے تو وہ حدیث کونسی ہے؟ جواب: اصلاً شرعی احکام و مسائل عورتوں اور مردوں سب کے لیے برابر ہیں۔ اِلاّ یہ کہ فرق کی کوئی واضح دلیل ہو۔ زیرِ بحث مسئلہ میں عورتوں کے استثناء کی چونکہ کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا آمین بالجہر کا حکم دو صنفوں کو یکساں طور پر شامل ہے۔ [2] عورتوں کی آمین مردوں تک پہنچنا: سوال: اگرعورتیں آواز سنوار کر آمین بالجہر کہیں اور ان کی آواز جماعت میں شامل مردوں تک پہنچے، تو کیا یہ درست ہے؟ جواب: عورتوں کو سادہ آوازمیں آمین بالجہر کہنی چاہیے۔ قرآن میں ہے: ﴿ فَلَا تَخضَعنَ بِالقَولِ ﴾(الاحزاب:۳۲) ’’تم نرم لہجے میں بات نہ کرو۔‘‘ سادگی میں آواز اگر مردوں تک پہنچ بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔صحابیات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مختلف مسائل دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ آواز تو پھر سنائی دیتی تھی۔
Flag Counter