Maktaba Wahhabi

697 - 829
طیبی ’’شرح مشکوۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ( فِی الحَدِیثِ دَلَالَۃٌ عَلٰی اَنَّ النَّوَافِلَ المَؤَقَّتَۃَ تُقضٰی، کَمَا تُقضٰی الفَرَائِضُ)) اور زینی شرح المصابیح میں فرماتے ہیں: (( اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ اَنَّ النَّافِلَۃَ المُوقَّتَۃَ تُقضٰی کَمَا تُقضٰی الفَرَائِضُ)) اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے’’منتقی الاخبار‘‘ میں تبویب قائم کی ہے، کہ فوت شدہ سنن مؤکدہ کی قضاء (مشروع) ہے۔ سنت مؤکدہ کی قضاء دینی چاہیے یا نہیں؟ سوال: فرض نماز سے پہلے سنتِ مؤکدہ پڑھ رہے ہوں اور اقامت کی آواز سن کر نماز توڑ دیں تو بعد میں توڑی ہوئی سنت مؤکدہ کی قضاء دینی چاہیے یا نہیں؟ جواب: سنتوں کی قضاجائز بلکہ مستحسن ہے۔چنانچہ ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : (( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا فَاتَتہُ الأَربَعُ قَبلَ الظُّھرِ، صَلَّاھَا بَعدَ الرَّکعَتَینِ، بَعدَ الظُّھرِ )) [1] ’’ رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم سے ظہر کی پہلی چار رکعتیں جب فوت ہو جاتیں، تو ظہر کی دو رکعتوں کے بعد آپ ان کو پڑھتے۔‘‘ لہٰذا مؤکدہ سنتوں کی قضاء کو ہی معمول بنانا چاہیے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کِتَاب: إِعلَامُ اَھلِ العَصرِ بِاَحکَامِ رَکعَتَی الفَجرِ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے قبل دوسنتیں اور عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے؟ سوال: بخاری شریف کی یہ حدیث کہ ’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت فجر سے پہلے اور دو رکعت عصر کے بعد کبھی نہیں چھوڑتے تھے؟ کیا بخاری میں یہ حدیث آتی ہے؟ جواب: مشارٌ الیہ حدیث صحیح بخاری کے (بَابُ مَا یُصَلِّی بَعدَ العَصرِ مِنَ الفَوائِتِ وَ نَحوِھَا) کے تحت بیان ہوئی ہے۔
Flag Counter