Maktaba Wahhabi

123 - 829
مسنون نہیں اور اگر دل میں پڑھ لینا کافی ہے تو اس کی دلیل ضرور ارشاد فرمائیں۔ جواب: بیت الخلاء سے باہر نکل کر دعاء پڑھ لے پھر داخل ہو کر وضوکرے اور بیت الخلاء سے فراغت کی دعاء بھی باہر آکر پڑھے یا پھر د ل ہی دل میں پڑھ لے۔ ۲۔ ایسی اضطراری حالت میں بھی دعاء باہر آکر پڑھے اور حاجت سے فراغت کے بعد باہر آکر وضوکے لیے ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھ کر پھر داخل ہو جائے۔ ۳۔ دل کا مصمم ارادہ شریعت میں قابلِ اعتبار سمجھا گیا ہے، اور اس پر جزاء مرتب ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَن تَشِیعَ الفَاحِشَۃُ ﴾ (النور:۱۹) دوسری جگہ ہے: ﴿ اِجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ ﴾ ( الحجرات:۱۲) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! فتح الباری(۱۱؍۳۲۷) زبان سے پڑھنا اس وقت مسنون ہے جب آدمی پاکیزہ مقام پر ہو۔ مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلاء میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم: سوال: موجودہ رہائشی مکانوں میں جو غسل خانہ اور بیت الخلاء مشترکہ بنائے جاتے ہیں، بظاہر بیت الخلاء صاف ستھرے نظر آتے ہیں کیا ان بیت الخلاء والے غسل خانوں میں وضوکیا جا سکتا ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو بسم اﷲ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلاء میں وضوکرنا جائز ہے، لیکن وہاں ’’بسم اﷲ‘‘ نہیں پڑھنی چاہیے۔ داخل ہونے سے پہلے بہ نیت وضوبسم اﷲ پڑھ لے یا قضائے حاجت سے فراغت کے بعد باہر آجائے اور بسم اﷲ پڑھ کے واپس جا کر وضوکرے ۔ سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمین کا فتویٰ ہے کہ دل میں پڑھ لے بہ آوازِبلند نہ پڑھے۔ فرماتے ہیں: (( اَلتَّسمِیَّۃُ اِذَا کَانَ الاِنسَانُ فِی الحَمَّامِ تَکُونُ بِقَلبِہٖ، وَ لَا یَنطِقُ بِھَا بِلِسَانِہٖ)) [1] ’’جب انسان بیت الخلاء میں ہو تو بسم اللہ دل میں ہی پڑھے ، زبان سے اس کو ادا نہ کرے‘‘ سوال: موجودہ دور میں بیت الخلاء اور غسل خانہ اکٹھے ہی بنائے جاتے ہیں، اسی میں رفعِ حاجت کے بعد وہیں پر وضوکرنا یا غسلِ جنابت کرنا ہو تو کیا ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھنا ہوگی جب کہ وہیں پر بیت الخلاء بھی ہے؟ جواب: بایں صورت بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھے لے یا پھر وضوکرنے سے پہلے
Flag Counter