Maktaba Wahhabi

451 - 829
اول، ص:۲۸۶،وغیرہ۔ (اہلِ حدیث، الاسلام ، الاعتصام) مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف کا تبصرہ اس سلسلے میں ہمیں دو گزارشات کرنی ہیں۔ اوّل حدیث ضعیف کے سلسلے میں ،وہ یہ کہ فاضل مضمون نگار کی حدیث ِ ضعیف کے متعلق بحث سے معلوم ہوتا ہے، کہ حدیث ضعیف مطلقاً ناقابلِ اعتبار ہے۔ لیکن یہ اطلاق محلِ نظر ہے۔ ہم موصوف کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس فیصلے کی طرف توجہ دلائیں گے، کہ انھوں نے تین شرطوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ’’تدریب الراوی‘‘ وغیرہ میں ہے: (( ذَکَرَ شَیخُ الاِسلَامِ ثَلَاثَۃَ شُرُوطٍ ۔ اَحَدُھَا: اَن یَکُونَ الضُّعفُ غَیرَ شَدِیدٍ۔ فَیَخرُجُ مِنَ الفَردِ مِنَ الکَذَّابِینَ، وَالمُتَّھِمِینَ بِالکِذبِ، وَ مَن فَحَشَ غَلَطُہُ۔ نَقَلَ العَلَائی الاتِّفَاق عَلَیہِ۔ الثَّانِی: یَندَرِجَ تَحتَ اَصلٍ مَعمُولٍ بِہِ۔ الثَّالِثُ: اَن لَّا یَعتَقِدَ عِندَ العَمَلِ بِہِ ثُبُوتَہُ ، بَل یَعتَقِد الاِحتِیَاطَ )) [1] یعنی شیخ الاسلام( حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) نے حدیث ضعیف کے لیے تین شرطیں ذکر کی ہیں۔ (۱)ضعف شدید قسم کا نہ ہو، یعنی راوی کذاب یا متہم بالکذب اور خطائے فاحش کا مرتکب نہ ہو۔ اگر کسی روایت میں اس انداز کا راوی ہو گا، تو یہ ضعف ِ شدید ہو گا، جس کی وجہ سے روایت پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جائے گی۔(۲) بیان کردہ روایت کی کوئی ایسی اصل (بنیاد) موجود ہو جو معمول بہ ہو(۳) عمل کرتے وقت روایت کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے، بلکہ احتیاط کے طور پر اس پر عمل کو جائز سمجھے۔ تیسری شرط کا مطلب یہ ہے، کہ اگر حدیث ضعیف میں مذکور عمل کی فضیلت کی کوئی اصل صحیح بھی موجود ہو، تو ایسی ضعیف قابلِ عمل ہو سکتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل موصوف کے استاذ علامہ ناصر الدین البانی( رحمہ اللہ ) جو ضعیف احادیث کے معاملہ میں کافی متشدد بتائے جاتے ہیں، اس توجیہ سے شاید ان کو بھی انکار نہ ہو۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی رجحان اسی طرف ہے۔ فاضل تنقید نگار نے حضرت الامام کی جس عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کیاہے۔ وہ عبارت یہ ہے۔(یعنی ایک طویل بحث کے سلسلے میں) ((لٰکن أحَمدَ بنَ حَنبَلٍ وَغَیرَہٗ مِنَ العُلَمَائِ جَوَّزُوا اَن یُروی فِی فضائلِ الأعمَالِ مَا لَم یُعلَم أَنَّہٗ ثَابتٌ اِذَا لَم یُعلَم اَنَّہُ کَذِبَ۔ وَ ذٰلِکَ أَن العَمَلَ اِذَا عُلِمَ أَنَّہٗ مَشرُوعٌ
Flag Counter