Maktaba Wahhabi

214 - 829
امام مسجد کا اذان دینا پھر نماز پڑھانا ،حدیث مبارکہ کی مخالفت تو نہیں؟ سوال: مولانا عبد الخالق سندھی کی کتاب ’’فَھَل اَنتُم مُنتَھُونَ‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے نواہی (ممنوعات) پر مشتمل احادیث جمع کی ہیں۔ بیہقی کے حوالے سے ایک حدیث لکھی ہے کہ امام اذان نہ دے۔ اگر بامر مجبوری اس نے اذان دینی ہو توکیا امامت کے لیے کسی اور کو آگے کرے؟ سوال یہ ہے کہ دیہاتوں میں عموماً امام مسجد ہی اذان دیتا ہے، اور نماز بھی پڑھاتا ہے کیا اس کا ایسا کرنا حدیث مذکورہ بالا کی مخالفت نہیں۔ صحیح صورت ِ حال سے آگاہ فرمائیں؟ جواب: اصل یہ ہے کہ مؤذن امام سے علیحدہ ہو، لیکن امام کے لیے بھی اذان دینے کا جواز ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی سے مخاطب ہو کر فرمایا: ((اِذَا سَاَفَرتُمَا فَاَذِّنَا وَ اَقِیمَا وَ لِیُوُمَّکُمَا اَکبَرُکُمَا )) [1] ’’یعنی جب تم دونوں سفر کرو تو اذان کہو اور تکبیر کہو اور تم میں جو بڑا ہے وہ تمہاری امامت کرے۔‘‘ حدیث ہذا میں اذان کا خطاب دونوں کو ہے۔ جب بڑے نے اذان کہہ دی تو امامت بھی وہی کرائے گا۔ جس سے مؤذن کا امام ہونا لازم آگیا۔ امام نووی رحمہ اللہ حدیث ہذا کی شرح میں رقمطراز ہیں : اگر کوئی شخص امامت اور اذان ہر دو کو جمع کرے تو اس میں اختلاف ہے ۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ مستحب یہ بات ہے کہ اس طرح نہ کرے اور بعض نے کہا کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔محققین اور اکثر علماء کا یہ کہنا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحب ہے۔ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح راعیِ غنم(بکریوں کا چرواہا) کی بابت حدیث آتی ہے، کہ جب وہ جنگل میں اذان اقامت کہہ کر نماز پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے لشکر اس کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں۔[2] اور بحوالہ ’’بیہقی‘‘ امام کے لیے اذان کی ممانعت جو نقل کی گئی ہے، بذاتِ خود امام موصو ف نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔’’ فَھٰذَا حَدِیثٌ إِسنَادُہٗ ضَعِیفٌ‘‘ اس لیے یہ قابلِ استدلال نہیں۔ فقہ حنفی کی کتاب ’’شامی‘‘ میں ہے کہ افضل یہ ہے کہ امام ہی مؤذن ہو۔یہ ہمارا مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس پر قائم تھے۔
Flag Counter